banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 79 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(79)

ترجمہ: کنزالایمان جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ:وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے ۔}یہودیوں کی ایک سر کشی یہ تھی کہ انہوں نے برائی ہوتی دیکھ کر ایک دوسرے کو اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو اُن کے علماء نے پہلے تو انہیں منع کیا، جب وہ باز نہ آئے تو پھر وہ علماء بھی اُن سے مل گئے اور کھانے پینے اُٹھنے بیٹھنے میں اُن کے ساتھ شامل ہوگئے اُن کی اسی نافرمانی اور سرکشی کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ  تعالیٰ نے حضرت داؤد اورحضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان سے اُن پر لعنت اُتاری۔   (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المائدۃ، ۵ / ۳۵، الحدیث: ۳۰۵۸)

گناہ سے روکنا واجب اور منع کرنے سے باز رہنا گناہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ برائی سے لوگوں کو روکنا واجب ہے اور گناہ سے منع کرنے سے باز رہنا سخت گناہ ہے۔ اس سے ان علماء کو اور بطورِ خاص ان پیروں کواپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی حاجت ہے کہ جواپنے ماننے والوں میں یا مریدین و معتقدین میں اِعلانِیَہ گناہ ہوتے دیکھ کر اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے منع کرنے سے لوگ گناہ سے باز آ جائیں گے پھر بھی ’’یا شیخ اپنی اپنی دیکھ ‘‘کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔

            حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن عذری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اس علم کو ہر پچھلی جماعت میں سے پرہیز گار لوگ اٹھاتے رہیں گے اور وہ غُلُوّ کرنے والوں کی تحریفیں ، اہلِ باطل کے جھوٹے دعوؤں اور جاہلوں کی غلط تاویل و تشریح کو دین سے دور کرتے رہیں گے۔(سنن الکبری للبیہقی، کتاب الشہادات، باب الرجل من اہل الفقہ۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۲۵۳، الحدیث: ۲۰۹۱۱)

            مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس میں غیبی بشارت ہے کہ تاقیامت میرے دین میں علماءے خیر پیدا ہوتے رہیں گے ۔ جو علمِ دین کو پڑھتے پڑھاتے اور تبلیغ کرتے رہیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ صالحین کو سَلف اور پچھلوں کو خَلف کہا جاتا ہے لہٰذا ہر جماعت ِصالحین اگلوں کے لحاظ سے خلف اور پچھلوں کے لحاظ سے سلف ہے۔ حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی مسلمانوں میں بعض جاہل علماء کی شکل میں نمودار ہو کر قرآن و حدیث کی غلط تاویلیں اور مَعنوی تحریفیں کردیں گے ،وہ مقبول جماعت ان تمام چیزوں کو دفع کرے گی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ !آج تک ایسا ہورہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوگا ،دیکھ لو علماءے دین کی سرپرستی نہ حکومت کرتی ہے نہ قوم لیکن پھر بھی یہ جماعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمتِ دین برابر کررہی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب العلم، الفصل الثانی، ۱ / ۲۰۱، تحت الحدیث: ۲۳۰)