banner image

Home ur Surah Al Maidah ayat 78 Translation Tafsir

اَلْمَـآئِدَة

Al Maidah

HR Background

لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(78)

ترجمہ: کنزالایمان لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داوداور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والوں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پرسے لعنت کی گئی۔ یہ لعنت اس وجہ سے تھی کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ سرکشی کرتے رہتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:کفر کرنے والوں پر لعنت کی گئی۔} ایلہ کے رہنے والوں کو ہفتہ کے دن شکار کرنا منع تھا، انہوں نے جب اس حکم کی مخالفت کی اور شکار کرنے سے باز نہ آئے تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے خلاف دعا فرمائی چنانچہ ان سب کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مَسخ کردیا گیا ۔سورہ ٔاعراف میں اس قصے کی تفصیل مذکور ہے اور اصحابِ مائدہ نے جب نازل شدہ دسترخوان کی نعمتیں کھانے کے بعد ممانعت کے باوجود انہیں ذخیرہ کیا اور ایمان نہ لائے تو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا فرمائی تو وہ خنزیر اور بندر بن گئے، ا س وقت اُن کی تعداد پانچ ہزار تھی۔(جمل، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۰-۲۶۱)

             بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہود ی اپنے آباء واَجداد پر فخر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں۔ اس آیت میں انہیں بتا دیا گیا کہ اُن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے توان پر لعنت کی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کی بشارت دی اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانے اور کفر کرنے والوں پر لعنت کی تھی۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۱ / ۵۱۶)

            اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کے نیک بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی نقصان کی دعا دنیا و آخرت میں رسوائی اور بربادی کا سبب بن سکتی ہے،لہٰذا ایسے کاموں سے بچتے رہنا چاہئے جو ان کی ناراضی کا سبب بنیں۔

{ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ:یہ (لعنت) ان کی نافرمانی اور سرکشی کا بدلہ ہے۔} اس میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان یہودیوں کی سرکشی سے غمزدہ نہ ہوں ، یہ لوگ تو عادی مجرم اور پرانے سرکش ہیں ، حتّٰی کہ اس سر کشی کی سزا میں بندر اور سور بھی بن چکے ہیں ، اس وقت ان کا امن میں رہنا صرف اس وجہ سے ہے کہ تم تمام عالَمین کے لئے رحمت ہو، تمہاری موجودگی میں عذاب نہ آئے گا۔