Home ≫ ur ≫ Surah Al Maidah ≫ ayat 88 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(87)وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(88)
تفسیر: صراط الجنان
{ لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ:پاکیزہ چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔} اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وعظ سن کر ایک روز حضرت عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں جمع ہوئی اور اُنہوں نے آپس میں ترک ِدنیا کا عہد کیا اور اس پر اتفاق کیا کہ وہ ٹاٹ پہنیں گے اور ہمیشہ دن میں روزے رکھیں گے اور ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزارا کریں گے، بستر پر نہ لیٹیں گے اور گوشت اور چکنائی نہ کھائیں گے اور عورتوں سے جدا رہیں گے نیز خوشبو نہ لگائیں گے ۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اس ارادہ سے روک دیا گیا۔( تفسیر قرطبی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ۳ / ۱۵۶، الجزء السادس)
احادیث ِ مبارکہ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اعتدال کا حکم فرمایا اور عبادت کرنے میں خود کو بہت زیادہ تکلیف میں ڈالنے سے منع فرمایا ۔ اس کے لئے درج ذیل 3 احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)… اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا فرماتی ہیں ’’رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف فرما تھے،اس وقت حضرت حولاء بنتِ تُوَیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَا ان کے پاس سے گزریں۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھَانے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی:’’یہ حولاء بنت تُوَیت (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا) ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ یہ رات بھر نہیں سوتیں۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: رات بھر نہیں سوتیں ! اتنا عمل کیا کرو جتنا آسانی سے کر سکو، بخدا! اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا لیکن تم اکتا جاؤ گے۔( مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۲۰(۷۸۵))
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رحمت ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف لائے، اس وقت مسجد کے دو ستونوں کے درمیان رسی تانی ہوئی تھی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یہ حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کی رسی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب ان پر تھکن یا سستی طاری ہوتی ہے تو اس رسی کو پکڑ لیتی ہیں۔ حضور سیدُ المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس رسی کو کھول دو، تم میں سے ہر شخص اس وقت تک نماز پڑھے جب تک وہ آسانی سے نماز پڑھ سکے اور جب اس پر تھکن یا سستی طاری ہو تو وہ بیٹھ جایا کرے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ، ص۳۹۴، الحدیث: ۲۱۹(۷۸۴))
(3)… حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اورہر رات قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا تھا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے میرا ذکر کیا گیا تو آپ نے مجھے بلوایا، میں خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ہر رات قرآنِ مجید پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں ، یا رسول اللہ ! لیکن میں نے اس عبادت سے صرف خیر کا ارادہ کیا ہے۔ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ تم مہینے میں صرف تین دن روزے رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں ا س سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے رکھو کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔ میں نے عرض کی :اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے نبی! حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کے روزے کس طرح تھے؟ ارشاد فرمایا ’’ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ اور فرمایا ’’ہر ماہ میں ایک قرآنِ پاک ختم کیا کرو۔ میں نے عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: ’’ پھر بیس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔ میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ارشاد فرمایا ’’ پھر دس دن میں ایک قرآنِ پاک ختم کر لو۔میں نے عرض کی: میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’ پھر سات دن میں قرآنِ پاک ختم کر لو اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالو کیونکہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔( مسلم، کتاب الصیام، باب النہی عن صوم الدہر۔۔۔ الخ، ص۵۸۵، الحدیث: ۱۸۲(۱۱۵۹))
حلال چیزوں کو ترک کرنے کاشرعی حکم :
حلال چیزوں کو ترک کرنا جائز ہوتا ہے کہ ان کا کرنا کوئی فرض و واجب نہیں ہوتا لیکن جس طرح حرام کو گناہ و نافرمانی سمجھ کر ترک کیا جاتا ہے اس طرح حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت نہیں۔ نیز کسی حلال چیز کے متعلق بطورِ مبالغہ یہ کہنے کی اجازت نہیں کہ ہم نے اس کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے۔ صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ سے جو بہت سی چیزوں کو ترک کرنے کے واقعات ملتے ہیں وہ بطورِ علاج ہیں یعنی جس طرح بیمار آدمی بہت سی غذاؤں کو حلال سمجھنے کے باوجود اپنی صحت کی خاطر پرہیز کرتے ہوئے کئی چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اسی طرح صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نفس کے علاج کیلئے بعض حلال چیزوں کو حلال سمجھنے کے باوجود ترک کردیتے ہیں ، لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حلال چیزوں کو ترک کرنے کی اجازت تو ہے لیکن یہ اجازت نہیں کہ ان کے ساتھ حرام جیسا سلوک کیا جائے۔
حلال چیزوں کو حرام قرار دینے کے بارے میں ایک اہم مسئلہ:
اس آیت ِ مبارکہ میں پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینے سے منع فرمایا، اس سے ان لوگوں کو بھی عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ جو مقبولانِ بارگاہ ِ الٰہی کی طرف منسوب ہر چیز پر حرام کے فتوے دینے پر لگے رہتے ہیں اور ہرچیز میں انہیں شرک ہی سوجھتاہے۔