Home ≫ ur ≫ Surah Al Maun ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِﭤ(1)
تفسیر: صراط الجنان
{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِ: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔} شانِ نزول : اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے بارے میں نازل ہوئی ،وہ قیامت کے دن کا انکار کرتا تھا اور برے کام بھی کیا کرتا تھا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی۔
تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی،مروی ہے کہ ابو جہل نے ایک یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لی،ایک دن وہ یتیم ننگے بدن ا س کے پاس آیا اور اپنے مال میں سے کچھ طلب کیا،اُس نے اسے دھکے دے کر نکال دیا ۔قریش کے سرداروں نے اس سے کہا کہ تم محمد(مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کر دیں گے،اس سے ان لوگوں کا مقصد نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مذاق اڑانا تھا لیکن یتیم کو یہ چیز معلوم نہ تھی،چنانچہ وہ یتیم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کسی محتاج کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے،چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس یتیم کے ساتھ ابو جہل کے پاس گئے ،اس نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کو دیکھ کر مرحبا کہا اور فوراً یتیم کا مال اس کے حوالے کر دیا۔یہ دیکھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں نے اسے عار دلایا اور کہا کہ تو اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ ابو جہل نے جواب دیا : خدا کی قسم!میں اپنے دین سے پھرا نہیں ،اصل بات یہ ہے کہ میں نے اُن کی دائیں اور بائیں طرف ایک نیزہ دیکھا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔
چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت کسی خاص آدمی کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نیک اعمال کرنا اور ممنوعات سے رکنا ثواب میں رغبت اور عذاب کے ڈر سے ہوتا ہے تو جب وہ قیامت کا ہی منکر ہو گا تو وہ نفسانی خواہشات اور لذتوں میں سے کچھ نہ چھوڑے گا ،اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کا انکارکفر اور گناہوں کی تمام اَقسام کی بنیاد کی طرح ہے۔اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انسان!کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہوجو دلائل واضح ہونے کے باوجود حساب اور جزاکا انکار کرتا ہے، اگر نہیں پہچانتے تو سنو:یہ وہ شخص ہے جو اپنے کفر کی وجہ سے یتیم کو دھکے دیتا،ڈانٹتا اور مارتا ہے اور ا س کے ساتھ ظلم کرتے ہوئے ا س کا حق اور اس کا مال اسے نہیں دیتا اور اپنے انتہا درجے کے بخل،دل کی سختی اور کمینے پن کی وجہ سے مسکین کو کھانا نہیں دیتا اور نہ ہی وہ کسی اور کویتیم کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا ہے کیو نکہ وہ ا س عمل پر ثواب ملنے کا اعتقاد نہیں رکھتا،اگر وہ جزا پر ایمان لاتا اور وعید پر یقین رکھتا تو ا س سے یہ اَفعال صادر نہ ہوتے۔( تفسیر کبیر، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۱۱ / ۳۰۱-۳۰۳، خازن، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۴ / ۴۱۲، ملتقطاً)