banner image

Home ur Surah Al Mulk ayat 16 Translation Tafsir

اَلْمُلْك

Al Mulk

HR Background

ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُ(16)اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًاؕ-فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ(17)

ترجمہ: کنزالایمان کیا تم اس سے نڈر ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسادے جبھی وہ کانپتی رہے۔ یا تم نڈر ہوگئے اس سے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تم پر پتھراؤ بھیجے تو اب جانو گے کیسا تھا میرا ڈرانا۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تم اُس (اللہ ) سے بے خوف ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے اس بات میں کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسادے تووہ زمین اچانک کانپنے لگے۔ یا تم اُس سے بے خوف ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے اس بات میں کہ وہ تم پر پتھراؤ بھیجے تو تم جلد جان لو گے کہ میرا ڈراناکیسا تھا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ: کیا تم اُس سے بے خوف ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں  ہے۔} اس آیت اور  اس  کے بعد والی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے کفارِمکہ کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اے کفارِمکہ!جس رب تعالیٰ کی سلطنت آسمان میں  ہے ،اس کی نافرمانی کر کے کیا تم اِس بات میں  اُس سے بے خوف ہو گئے کہ وہ قارون کی طرح تمہیں  بھی زمین میں  دھنسا دے اور اس وقت تک زمین کو حرکت میں  رکھے جب تک تم اس کے سب سے نچلے حصے میں  نہ پہنچ جاؤ۔یا جس رب تعالیٰ کی سلطنت آسمان میں  ہے، اس کی نافرمانی کر کے کیا تم اِس بات میں  اُس سے بے خوف ہوگئے کہ وہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح تم پر بھی پتھراؤ بھیجے،تو عذاب دیکھ کر تم جلد جان لو گے کہ میرا اپنے عذاب سے ڈراناکیسا تھا؟( خازن، الملک، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۴ / ۲۹۱، سمرقندی، الملک، تحت الآیۃ: ۱۶-۱۷، ۳ / ۳۸۸، ملتقطاً)

اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہ ہُوا جائے:ـ

            اسی عذاب کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًا‘‘(بنی اسرائیل:۶۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئےکہ اللّٰہ تمہارے ساتھ خشکی کا کنارہ زمین میں  دھنسا دے یا تم پر پتھر بھیجے پھر تم اپنے لئے کوئی حمایتی نہ پاؤ ۔

             اور ارشاد فرمایا: ’’ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ‘‘(انعام:۶۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے قدموں  کے نیچے سے عذاب بھیجے۔

            اور یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ انہیں  عذاب دینے پر قادر ہونے کے باوجود ان کے کفر اور گناہوں  کی وجہ سے فوری عذاب نازل نہیں  کرتا بلکہ اسے مُؤخّر فرما دیتا ہے ،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِیْرًا‘‘(فاطر:۴۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر اللّٰہ لوگوں  کو ان کے اعمال کے سبب پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والانہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقرر میعاد تک انہیں  ڈھیل دیتا ہے پھرجب  ان کی مقررہ مدت آئے گی تو بیشک اللّٰہ  اپنے تمام بندوں  کو دیکھ رہا ہے۔

            لہٰذا اس کی رحمت اور کرم کے پیشِ نظر اس کے عذاب سے بے خوف ہو جانابہت بڑی نادانی اور کم عقلی ہے۔