banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 34 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۙ-مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْۙ-یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ(33)وَ لَىٕنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(34)

ترجمہ: کنزالایمان اور بولے اس قوم کے سردار جنہوں نے کفر کیا اور آخرت کی حاضری کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں چین دیا کہ یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی جو تم کھاتے ہو اسی میں سے کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں سے پیتا ہے۔ اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اس کی قوم کے وہ سردار بولے جنہوں نے کفرکیااورآخرت کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں خوشحالی عطا فرمائی (بولے:) یہ تو تمہارے جیسا ہی ایک آدمی ہے، جو تم کھاتے ہو اسی میں سے یہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں سے یہ پیتا ہے۔ اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو گے جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ: اور بولے۔} یہاں  سے حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے کافر سرداروں  کے شبہات بیان کئے گئے ہیں ، ا س آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ہود عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت سن کر ان کی قوم کے وہ سردار جنہوں  نے کفرکیااورآخرت کی ملاقات اور وہاں  کے ثواب و عذاب وغیرہ کو جھٹلایا حالانکہ  اللہ تعالیٰ نے انہیں  عیش کی وسعت اور دنیا کی نعمت عطا فرمائی تھی، یہ اپنے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں  اپنی قوم کے لوگوں  سے کہنے لگے ’’یہ تو تمہارے جیسے ہی ایک آدمی ہیں ، جو تم کھاتے ہو اسی میں  سے یہ کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو اسی میں  سے یہ پیتا ہے۔ یعنی اگر یہ نبی ہوتے تو فرشتوں کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے۔ ان باطن کے اندھوں  نے کمالاتِ نبوت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے اور یہی چیز اُن کی گمراہی کی بنیادہوئی، چنانچہ اسی سے انہوں  نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں  کہنے لگے’’اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی بات مان کر اس کی اطاعت کرو گے جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ص۷۵۷، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۳-۳۴، ۶ / ۸۲، ملتقطاً)

آیت ’’وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ‘‘ سے معلوم ہونے والی باتیں :

            اس سے دو باتیں  معلوم ہوئیں 

(1)… ہمیشہ مالدار، سردار، دنیاوی عزت والے زیادہ تر لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مخالف ہوئے۔ غُرباء و مَساکین زیادہ مومن ہوئے، اب بھی یہی دیکھا جا رہا ہے کہ عموماًغریب لوگ ہی دینی کام زیادہ کرتے ہیں ۔

(2)… نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا اور ان کے ظاہری کھانے پینے کو دیکھنا، باطنی اَسرار کو نہ دیکھنا، ہمیشہ سے کفار کا کام رہا ہے۔ پہلی بارشیطان نے نبی کو بشر کہا، پھر ہمیشہ کفار نے ایساکہا۔

{اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: جب تو تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔} یعنی خدا کی قسم! اگر تم نے اس کے احکاما ت کی پیروی کی تو ا س صورت میں  اپنے آپ کوذلت میں  ڈال کر تم ضرور خسارہ پانے والے ہوگے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۸۲)

کافر بہت بڑا بے عقل ہے:

             اللہ تعالیٰ کے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیروی سے دونوں  جہاں  میں  سعادتیں  نصیب ہوتی ہیں  لیکن ان بیوقوفوں  نے نبی عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اطاعت میں  اپنی ناکامی جبکہ پتھروں  کی عبادت میں  کامیابی سمجھی، اس سے معلوم ہوا کہ کافر بہت بڑا بے عقل ہوتا ہے۔