Home ≫ ur ≫ Surah Al Muminun ≫ ayat 4 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ(4)
تفسیر: صراط الجنان
{هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ: وہ زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔} اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ، ص ۷۵۱ ، البحر المحیط ، المؤمنون ، تحت الآیۃ : ۴ ، ۶ / ۳۶۶، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۴، ۶ / ۶۸، ملتقطاً)
زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعید:
کثیر اَحادیث میں زکوٰۃ ادا کرنے کے فضائل اور نہ دینے کی وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 4 اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، تو بیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۵۷۹)
(2)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو۔( شعب الایمان ، باب الثانی و العشرین من شعب الایمان ۔۔۔ الخ ، فصل فیمن اتاہ اللہ مالاً من غیر مسألۃ ، ۳ / ۲۸۲ ، الحدیث: ۳۵۵۷)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مال کی زکاۃ نکال، کہ وہ پاک کرنے والی ہے تجھے پاک کر دے گی۔( مسندامام احمد، مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ۴ / ۲۷۳، الحدیث: ۱۲۳۹۷)
(4)…صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اُس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا، جس کے سر پر دو نشان ہوں گے۔ وہ سانپ اُس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا، پھر اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں اور میں تیرا خزانہ ہوں ۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)
نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنا کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے:
اس آیت کی دوسری تفسیر سے معلوم ہو اکہ نفس کو مذموم صفات جیسے تکبر و ریاکاری، بغض وحسد اور دنیا کی محبت وغیرہ سے پاک کرنا اُخروی کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔اسی سے متعلق اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى‘‘(اعلٰی:۱۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹)وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا‘‘(شمس:۹،۱۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔
حضرت زید بن ارقم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے: ’’اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا‘‘ اے اللّٰہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کاولی اور مولیٰ ہے۔( مسلم ، کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار ، باب التعوّذ من شرّ ما عمل ۔۔۔ الخ ، ص۱۴۵۷، الحدیث: ۷۳ (۲۷۲۲))
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعا امت کی تعلیم کے لئے ہے، اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کو مذموم صفات سے پاک کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پاکی کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا بھی کرے اور اس دعا کے لئے وہ الفاظ سب سے بہترین ہیں جو اوپر حدیث پاک میں مذکور ہوئے۔