banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 53 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

فَتَقَطَّعُوْۤا اَمْرَهُمْ بَیْنَهُمْ زُبُرًاؕ-كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَیْهِمْ فَرِحُوْنَ(53)

ترجمہ: کنزالایمان تو ان کی امتوں نے اپنا کام آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو ان کی امتوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، ہرگروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَتَقَطَّعُوْا: تو ان کی امتوں  نے ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔} یعنی  اللہ عَزَّوَجَلَّ کا دین ایک ہی ہے البتہ ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امتوں  نے اپنے دین کو آپس میں  ٹکڑے ٹکڑے کرلیا اور یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ فرقے فرقے ہوگئے۔ معنی یہ ہے کہ ہر قوم نے ایک کتاب کو مضبوطی سے تھام لیا، صرف اسی پر ایمان لائے اور دیگر کتابوں  کا انکار کر دیا۔ ہر گروہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں  کو باطل پر سمجھتا ہے۔ اس طرح اُن کے درمیان دینی اختلافات ہیں۔( تفسیرسمرقندی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۴۱۵، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۵۳، ۳ / ۳۲۷، ملتقطاً)

            اسی طرح امتیں  یوں  بھی ٹکڑوں  میں         بٹیں  کہ فرقوں  میں  بٹ گئیں  اور اپنے دین کی اپنی اپنی تشریحات بنالیں  جیسے یہودیوں  اور عیسائیوں  میں  ہوا کہ بیسیوں  فرقوں  میں  بٹ گئے۔دین کی یہ تفریق بھی حرام ہے۔ اس حوالے سے یہاں  دو اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔

(1)… حضرت معاویہ بن سفیان رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا’’خبردار ہو جاؤ!تم سے پہلے اہلِ کتاب بہتر فرقوں  میں  بٹ گئے تھے اور عنقریب یہ امت تہتر فرقوں  میں  بٹ جائے گی،بہتر فرقے تو جہنم میں  جائیں  گے اور ایک ہی فرقہ جنت میں  جائے گا اوروہ سب سے بڑی جماعت ہے۔‘‘ ایک روایت میں  یہ بھی ہے کہ عنقریب میری امت میں  ایسے لوگ نکلیں  گے کہ گمراہی ان میں  یوں  سرایت کر جائے گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے آدمی کے جسم میں  زہر سرایت کر جاتا ہے۔ایک روایت میں  یوں  ہے کہ جیسے کتے کے کاٹے ہوئے کے جسم میں  زہر داخل ہو جاتا ہے کہ کوئی رگ اور کوئی جوڑ اس سے نہیں  بچتا۔( ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب شرح السنّۃ، ۴ / ۲۶۳، الحدیث: ۴۵۹۷)

(2)…حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک دن صبح کی نماز کے بعد نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں  انتہائی بلیغ وعظ فرمایا جس سے ہر آنکھ سے آنسو رواں  ہو گئے اور سب کے دل لرز گئے۔ایک صحابی رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے عرض کی: یہ تو ا س شخص کی نصیحت کی طرح ہے جو رخصت ہو رہا ہو۔ یا رسولَ  اللہ !صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ہمیں  کس بات کا حکم دیتے ہیں  ؟حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’میں  تمہیں   اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں  اور اگر کوئی حبشی غلام تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے تو ا س کا بھی حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔بے شک تم میں  سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ تم (شریعت کے خلاف) نئی باتوں  سے بچتے رہنا کیونکہ یہ گمراہی ہے۔تم میں  جو شخص یہ زمانہ پائے اسے میرا اور میرے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والے خُلفاء کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور تم سنت کو مضبوطی سے پکڑ لو۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی الاخذ بالسنّۃ واجتناب البدع، ۴ / ۳۰۸، الحدیث: ۲۶۸۵)