banner image

Home ur Surah Al Muminun ayat 60 Translation Tafsir

اَلْمُؤْمِنُوْن

Al Muminun

HR Background

وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ(60)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ دیں اور ان کے دل ڈر رہے ہیں یوں کہ ان کو اپنے رب کی طرف پھرنا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ جنہوں نے جو کچھ دیا وہ اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ: اور وہ جو دیتے ہیں ۔} اس آیت میں  ایمان والوں  کا چوتھاوصف بیان فرمایا کہ وہ  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ زکوٰۃ و صدقات دیتے ہیں  یا جو نیک اعمال بجالاتے ہیں ، اس وقت ان کاحال یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل اس بات سے ڈر رہے ہوتے ہیں  کہ کہیں  ان کے اعمال رد ہی نہ کر دئیے جائیں ، کیونکہ انہیں  یقین ہے کہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹنے والے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۳۲۷)

            ترمذی کی حدیث میں  ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا نے دو عالَم کے سردار صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں  ان لوگوں  کا بیان ہے جو شرابیں  پیتے ہیں  اور چوری کرتے

ہیں ؟ ارشاد فرمایا: اے صدیق کی بیٹی! ایسا نہیں ، اس آیت میں  اُن لوگوں  کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں ،نمازیں  پڑھتے ہیں  ،صدقے دیتے ہیں  اور ڈرتے رہتے ہیں  کہ کہیں  یہ اعمال نامقبول نہ ہوجائیں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ المؤمنین، ۵ / ۱۱۸، الحدیث: ۳۱۸۶)

نیکی کرنا اور ڈرنا، ایمان کے کمال کی علامت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ نیکی کرنا اور ڈرنا، کمالِ ایمان کی علامت ہے۔

پہلے زمانے کے اور موجودہ زمانے کے لوگوں  کا حال:

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت کرتے اور جو بھی عمل کرتے دل میں  خوفِ خدا رہتا تھا کہ انہوں  نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں  گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں  کے بارے میں  خوف زدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرتے اور خواہشات اور شبہات سے بچتے تھے، اس کے باوجود وہ تنہائی میں  اپنے نفسوں  کے لئے روتے تھے۔

            لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں  کو مطمئن، خوش اوربے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں  پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں  پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں  اور  اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفوودرگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں  گویا ان کا گمان یہ ہے کہ انہوں  نے جس طرح  اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمْ اور پہلے بزرگوں  کو بھی حاصل نہ تھی۔ اگر یہ بات محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے تو ان بزرگوں  کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔حضرت معقل بن یسار رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا’’لوگوں  پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں  قرآن پاک ان کے دلوں  میں  ایسے پرانا ہوجائے گا جیسے بدن پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں ، ان کے تما م کام لالچ کی وجہ سے ہوں  گے جس میں  خوف نہیں  ہوگا، اگر ان میں  سے کوئی اچھا عمل کرے گا تو کہے گا یہ مقبول ہوگا اور اگر برائی کرے گا تو کہے گا میری بخشش ہوجائے گی۔( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۴)

            یہ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  نے آج سے تقریباً    900 سال پہلے کے حالات لکھے ہیں  اور فی زمانہ تو حالاتاس سے کہیں  زیادہ نازک ہو چکے ہیں ۔  اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک اعمال کے سلسلے میں  اپنے بزرگوں  کی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔