Home ≫ ur ≫ Surah Al Muminun ≫ ayat 69 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَهُمْ فَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ(69)
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا: یا کیا اُنہوں نے پہچانانہیں ہے؟} کفار ِمکہ سے مزید فرمایا کہ کیا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانانہیں اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عمر شریف کے جملہ اَحوال کو نہ دیکھا اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عالی نسب، صدق و امانت، وُفورِ عقل، حسنِ اَخلاق، کمالِ حلم، وفا و کرم اور مُرَوَّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق، اچھی صِفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں کامل اور تمام جہان سے زیادہ علم رکھنے اور فائق ہونے کو نہ جانا، کیا ایسا ہے؟ حقیقت میں یہ بات تو نہیں بلکہ وہ سَرورِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برگُزیدہ صفات شہرہ آفاق ہیں ، پھر بھی وہ بلاوجہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پیارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار کررہے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ : ۶۹، ۳ / ۳۲۸، مدارک، المؤمنون ، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۷۶۱، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۶۹، ۶ / ۹۴، ملتقطاً)
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے کا ایک طریقہ:
قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں ایک مختصر مضمون دیا جارہا ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت پہچاننے اور آپ کے محبت کیلئے قابل ترین ہستی ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان کے کچھ کمالات فِطری ہوتے ہیں جیسے حسن،قوت،عقل، فہم کی درستی، زبان کی فصاحت، حَواس اور اَعضاء کی قوت،مُعتدل حرکات،نسب کی شرافت، قومی عزت،وطنی کرامت۔ نیز کچھ چیزیں زندگی کی ضرورت ہوتی ہیں جو اگرچہ دنیوی ہوتی ہیں لیکن جب ان سے تقویٰ مقصود ہو تو وہ آخرت کی خوبیوں اور خصلتوں کے ساتھ لاحق ہوجاتی ہیں جیسے غذا،نیند،لباس، مکان، نکاح،مال اور عہدہ و منصب وغیرہ اور کچھ اَوصاف وہ ہوتے ہیں جو مُطلَقاً آخرت کے شمار ہوتے ہیں جیسے تمام بلند اَخلاق، شرعی آداب، علم، بُردباری، صبر، شکر،انصاف،زُہد، تواضع، عَفْو، عِفَّت، سخاوت، شجاعت، حیائ، مُرَوَّت، خاموشی، سکون، وقار، مہربانی، آداب و معاشرت کا حسن وغیرہ ۔ اوریہی وہ خصائل ہیں جن کے مجموعہ کو حسنِ خُلق سے تعبیر کیا جاتاہے۔ان میں سے بعض خصلتیں تو کسی کی فطری عادت ہوتی ہیں اور کسی کی فطری تو نہیں ہوتی لیکن وہ انہیں محنت و ریاضت سے حاصل کرلیتا ہے۔ ان خوبیوں کا حال یہ ہے کہ کسی شخص میں ان میں سے ایک یا دو بھی پائی جائیں تو وہ بڑا مشرف ومعزز مانا جاتا ہے،مثلاً نسب یا جمال یا، قوت یا علم یا شجاعت یا سخاوت وغیرہ میں سے ایک بھی وصف پایا جائے تو وہ پسندیدہ، محبوب اور عظیم بن جاتا ہے حتّٰی کہ اس بندے کی قدر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ا س کے نام کو مثال کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اور اس وصف کی وجہ سے دلوں میں اس کے اثر اورعظمت کا سکہ جم جاتا ہے اور یہ بات گزشتہ زمانے سے چلی آرہی ہے،توپھر ا س ذاتِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور محبوبیت کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جس میں یہ تمام کے تمام مَحاسن و خَصائل پیدائشی اور فطری طور پر کامل ترین طرز پر جمع ہیں جن سے بہتر جامِعِیّت کا تَصَوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔