Home ≫ ur ≫ Surah Al Muminun ≫ ayat 75 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ وَ كَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّنْ ضُرٍّ لَّلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(75)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَوْ رَحِمْنٰهُمْ: اور اگر ہم ان پر رحم فرماتے۔} شانِ نزول: جب قریش سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اور ان کی حالت بہت اَبتر ہوگئی تو ابوسفیان اُن کی طرف سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : کیا آپ اپنے خیال میں سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر نہیں بھیجے گئے۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا بے شک۔ ابوسفیان نے کہا: قریش اپنے خلاف آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا سے اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہوئے، فاقوں سے تنگآگئے، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں چبا گئے اور مردار تک کھا گئے۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور قرابت کی، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمادے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی اور انہوں نے اس بلا سے رہائی پائی اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۲۹، ملخصاً)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم ان پر رحم فرمائیں اور سات سالہ قحط سالی کی جو مصیبت ان اہلِ مکہ پر پڑی ہے وہ ٹال بھی دیں توپھر وہ اپنے کفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں گے اور ان کی یہ خوشامد و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مومنین کی عداوت اور تکبر جواُن کا پہلا طریقہ تھا، یہ وہی اختیار کریں گے۔( ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۶۰، ملخصاً)