Home ≫ ur ≫ Surah Al Mumtahanah ≫ ayat 8 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(8)اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(9)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ: اللّٰہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین میں لڑائی نہیں کی۔} اس آیت کی تفسیر میں کثیر اَقوال اور اختلاف ہیں ،اور عملی صورتیں جن پر اِس آیت کو مُنطَبِق کرنا ہے وہ تو سینکڑوں سے زائد ہیں لہٰذا صرف ایک راجح خلاصۂ کلام یہاں پیش کیا جاتا ہے ، تفصیل کیلئے فتاویٰ رضویہ کی چودھویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رسالے ’’ اَلْمَحَجَّۃُ الْمُؤْتَمِنَۃ فِی اٰیَۃِ الْمُمْتَحِنَہ‘‘ کا مطالعہ کریں ۔خلاصۂ آیات یہ ہے کہ جن کفار سے مسلمانوں کا امن و امان کا معاہدہ ہے یا جوذِمّی کفار ہیں ان کے ساتھ بِر یعنی اچھا سلوک کرنے اور اِقساط کی ممانعت نہیں بلکہ اجازت ہے جبکہ ان کے علاوہ کے ساتھ ممانعت ہے۔اِقساط کا معنی اور بِر و اِقساط دونوں کی تفصیل کیلئے نیچے کا کلام ملاحظہ فرمائیں :
بِر یعنی نیکی کرنا، حُسنِ سلوک کرنا کیا ہے ؟
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کفار کے ساتھ بِر و صِلہ کی تین صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ بر و صلہ کی تین صورتیں ہیں :
(1)…اعلیٰ صورت:اپنی کسی صحیح غرض کے بغیر بالقصدمحض کافر کو نفع دینا اور بھلائی پہنچانا مقصود ہو۔یہ صورت مُستامِن یعنی امان لے کر اسلامی سلطنت میں آنے والے کافر اور مُعاہِد یعنی اس کافر سے بھی حرام ہے جس کے ساتھ معاہدہ ہے کیونکہ امان اور معاہدہ ضَرَر کوروکنے کے لئے ہیں نہ کہ اللّٰہ تعالیٰ کے دشمنوں کو جان بوجھ کر نفع پہنچانے کے لئے۔
(2)…درمیانی صورت :اپنی ذاتی مصلحت جیسے کافر نے کچھ دیا تو اس کے بدلے میں اسے دینا یا رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ مالی سلوک کرنا۔یہ اس کافر کے ساتھ جائز ہے جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہے اور جس سے معاہدہ نہیں اس سے ممنوع ہے۔
(3)…ادنیٰ صورت:اسلام اور مسلمانوں کی مَصلحت کے لئے جنگی چال کے طور پر کچھ دیا جائے۔یہ حربی کافر یعنی جس سے معاہدہ نہیں اس کے ساتھ بھی جائز ہے ۔
آیت ِکریمہ ’’لَا یَنْهٰىكُمْ‘‘ میں ’’بِر‘‘ یعنی احسان کی درمیانی صورت مراد ہے کیونکہ اعلیٰ اس کافر سے بھی حرام ہے جس سے معاہدہ ہے اور ادنیٰ اس کافر کے ساتھ بھی جائز ہے جس سے معاہدہ نہیں ۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵،۴۶۸، ۴۶۹، ملخصاً)
اقساط کا مفہوم:
اِقساط یعنی انصاف کرنے کے مفسرین نے تین معانی بیان کئے ہیں :
ایک معنی یہ ہے کہ ان پر ظلم نہ کرو۔ اس معنی کے اعتبار سے یہ حکم حربی و معاہد ہر طرح کے کافر کیلئے عام ہے کہ حربی پر بھی ظلم کرنے کی اجازت نہیں اور اِس معنی کے اعتبار سے یہ حکم رخصت نہیں بلکہ واجب ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ کافروں سے کیا ہوا معاہدہ پورا کرو اور اس صورت میں بھی یہ حکم واجب ہے نہ کہ صرف رخصت، البتہ معاہدے کی مدت پوری کرنا واجب نہیں ،کوئی مصلحت ہو تو مدت سے پہلے بتا کر معاہدہ توڑ دینا جائز ہے۔
تیسرا معنی یہ کہ اِقساط سے مراد اپنے مال سے کچھ حصہ دیدینا ہے اور یہ وہی بریعنی نیکی کرنا ہی ہے، گویااِس صورت میں برو اِقساط ایک ہی چیز ہوگئے ۔ اس پر اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاں یہاں بر (نیکی کرنے) اور اِقساط (انصاف کرنے) دونوں لفظوں میں یوں فرق ہوسکتا ہے کہ اِقساط کا مطلب ہے کہ جتنا کافر نے دیا اتنا ہی دیا جائے جیسے کافر نے ہزار روپے کی چیز دی تو جواب میں ہزار روپے کی چیز ہی دیدی جائے تو یہ اقساط یعنی برابری کرنا ہوگیا جبکہ اگر وہ کچھ نہ دے اور مسلمان اپنی رشتے داری یا کسی مصلحت کی وجہ سے اسے ہزار روپے کی چیز دیدے یا کافر نے ہزار روپے کی چیز دی لیکن مسلمان ہزار سے زائد کی شے دیدے تو یہ بِر یعنی احسان کرنا، نیکی کرنا، سلوک کرنا کہلائے گا۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۷۱، ملخصاً)
کفار کے ساتھ دوستی کی صورتیں اور ان کے اَحکام:
آیت نمبر 9 میں کفار کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا،یہاں ان سے دوستی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ ملاحظہ ہو،
مُوالات (یعنی کفار کے ساتھ دوستی) کی دو قسمیں ہیں :
(1)…حقیقی موالات:اس کی ادنیٰ صورت قلبی میلان ہے،یہ تمام صورتوں میں ہر کافر سے مُطْلَقاً ہر حال میں حرام ہے البتہ طبعی میلان جیسے ماں باپ،اولادیا خوبصورت بیوی کی طرف غیر اختیاری طور پر ہوتا ہے یہ اس حکم میں داخل نہیں پھر بھی اس تَصَوُّر سے کہ یہ اللّٰہ و رسول کے دشمن ہیں اور ان سے دوستی حرام ہے،اپنی طاقت کے مطابق اس میلان کو دبانا یہاں تک کہ بن پڑے تو فنا کر دینا لازم ہے ،اس میلان کا آنا بے اختیار تھا اور اسے زائل کرنا قدرت میں ہے تو اسے رکھنا دوستی کو اختیار کرنا ہوا اور یہ حرامِ قطعی ہے اسی لئے جس غیر اختیاری چیز کے ابتدائی اُمور کسی شخص نے اپنے اختیار سے پیدا کئے تو اس میں اس کا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا جیسے شراب سے عقل زائل ہو جانا اختیار میں نہیں لیکن جب اختیار سے پی تو عقل کا زوال اور اس پر جو کچھ مُرَتَّب ہواسب اسی کے اختیار سے ہو گا۔
(2)… صورۃً موالات:اس کی صورت یہ ہے کہ بندے کا دل کافر کی طرف اصلاً مائل نہ ہو لیکن اس سے برتاؤ ایسا کرے جو بظاہر محبت و میلان کا پتا دیتا ہو۔یہ ضرورت اور مجبوری کی حالت میں صرف ضرورت و مجبوری کی مقدار مُطْلَقاً جائز ہے اور بقدرِ ضرورت یہ کہ مثلاً صرف عدوات کااظہار نہ کرنے سے کام نکلتا ہو تو اسی قدر پر اِکتفاء کرے اور اظہارِ محبت کی ضرورت ہو تو حتّی الامکان پہلودار بات کہے، صراحت کے ساتھ اظہار کرنے کی اجازت نہیں ، اور اگر اس کے بغیر نجات نہ ملے اور دل ایمان پر مطمئن ہو تو صراحت کے ساتھ اظہار کی رخصت ہے اور اب بھی عزیمت یہی ہے کہ ایسا نہ کرے۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ، ۱۴ / ۴۶۵-۴۶۷، ملخصاً)
اب زیرِ تفسیر دونوں آیات کا خلاصہ ملاحظہ ہو ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! اللّٰہ تعالیٰ تمہیں ان کافروں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین میں لڑائی نہیں کی اورنہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، بیشک اللّٰہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور وہ تمہیں صرف ان کافروں کے ساتھ دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے اورانہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے پر تمہارے مخالفین کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔( خازن، الممتحنۃ، تحت الآیۃ: ۸-۹، ۴ / ۲۵۸)