banner image

Home ur Surah Al Mursalat ayat 45 Translation Tafsir

اَلْمُرْسَلٰت

Al Mursalat

HR Background

اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلٰلٍ وَّ عُیُوْنٍ(41)وَّ فَوَاكِهَ مِمَّا یَشْتَهُوْنَﭤ(42)كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(43)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(44)وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ(45)

ترجمہ: کنزالایمان بے شک ڈر والے سایوں اور چشموں میں ہیں ۔ اور میووں میں سے جو کچھ ان کا جی چاہے۔ کھاؤ اور پیو رچتا ہوا اپنے اعمال کا صلہ۔ بے شک نیکوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔ اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ۔ ترجمہ: کنزالعرفان بیشک ڈر نے والے سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اور پھلوں میں سے جو وہ چاہیں گے۔ اپنے اعمال کے بدلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو ۔ بیشک نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔ اس دن جھٹلانے والوں کیلئے خرابی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک ڈر نے والے۔} قیامت کے دن کفار پر آنے والے مختلف عذابات اور اس دن ان کی ہونے والی رُسوائیاں  بیان کرنے کے بعد اب اہلِ ایمان کو ملنے والی نعمتوں  کو بیان کیا جا رہا ہے، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی تین آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک وہ لوگ جو دنیا میں  اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے تھے وہ آخرت میں  جَنّتی درختوں  کے سایوں  اور جنت میں  جاری چشموں  میں  ہوں  گے اور جن پھلوں  سے ان کا جی چاہے گا ان سے لذت اٹھائیں  گے اور جنتیوں  سے کہا جائے گا کہ اپنے ان نیک اعمال کے بدلے میں  جو تم نے دنیا میں  کئے تھے مزے سے ایسی لذیذ اورخالص چیزیں کھاؤ اور پیو جن میں  ذرا سا بھی طبعی طور پر نقصان کا شائبہ نہیں ۔بیشک نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں  لہٰذا تم بھی نیکیاں  کرو تاکہ ایسی جزا حاصل کر سکو۔( خازن، المرسلات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ۴ / ۳۴۵، مدارک، المرسلات، تحت الآیۃ: ۴۱-۴۴، ص۱۳۱۲، ملتقطاً)

{وَ فَوَاكِهَ مِمَّا یَشْتَهُوْنَ: اور پھلوں  میں  سے جو وہ چاہیں  گے۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ اہل ِجنت کو دُنْیَوی زندگی کے برخلاف ان کی مرضی کے مطابق جَنّتی نعمتیں  ملیں  گی جبکہ دنیا میں  آدمی کو جو مُیَسَّر ہوتا ہے اسی پر اسے راضی ہونا پڑتا ہے۔( جلالین، المرسلات، تحت الآیۃ: ۴۲، ص۴۸۶)

{وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ: اس دن جھٹلانے والوں  کیلئے خرابی ہے۔} قیامت کے دن مومن انتہائی عزت وکرامت کے ساتھ ہو گا جبکہ کافر انتہائی ذلت و رُسوائی کی حالت میں  ہو گا ۔ جب وہ مومن کو انتہائی عزت و کرامت میں  دیکھے گا تو اس کی حسرت بڑھ جائے گی اور ا س کے غم اور زیادہ ہو جائیں  گے اور یہ بھی روحانی طور پر ایک عذاب ہے، اس لئے یہاں  فرمایا گیا کہ اس دن جھٹلانے والوں  کیلئے خرابی ہے۔( تفسیر کبیر، المرسلات، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱۰ / ۷۷۹-۷۸۰)