banner image

Home ur Surah Al Muzzammil ayat 3 Translation Tafsir

اَلْمُزَّمِّل

Al Muzzammil

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ(1)قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(2)نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیْلًا(3)اَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاﭤ(4)

ترجمہ: کنزالایمان اے جھرمٹ مارنے والے۔ رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو۔ یا اس پر کچھ بڑھاؤ اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے چادر اوڑھنے والے۔ رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔ آدھی رات (قیام کرو) یا اس سے کچھ کم کرلو۔ یا اس پر کچھ اضافہ کرلو اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ: اے چادر اوڑھنے والے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں  سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خوف سے اپنے کپڑوں  میں  لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چادر شریف میں  لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں  آپ کو ندا کی گئی ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ ۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۲۰، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۷۸۲-۷۸۳)

آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں  معلوم ہوئیں ،

(1)…قرآنِ پاک میں  دیگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے نام شریف سے پکارا گیا جبکہ سیّد المرسَلین صَلَّی  اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی صفات شریف سے ندا کی گئی ہے۔

(2)…ندا کے ا س انداز سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر ادا پیاری ہے ۔

{قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا: رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے چادر اوڑھنے والے میرے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، رات کے تھوڑے حصے میں  آرام فرمائیے اور باقی رات نماز اور عبادت کے ساتھ قیام میں  گزارئیے اور وہ باقی آدھی رات ہو یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔ یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا گیا ہے کہ عبادت خواہ آدھی رات تک کریں  یا اس سے کم یعنی تہائی رات تک کریں  یا اس سے زیادہ یعنی دو تہائی رات تک کرتے رہیں ۔

             نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اسی مقدار کے مطابق رات کوقیام فرماتے اور ان میں  سے جوحضرات یہ بات نہیں  جانتے تھے کہ تہائی رات ،یا آدھی رات، یا دو تہائی رات کب ہوتی ہے تووہ ساری رات قیام میں  رہتے اور اس اندیشے سے صبح تک نمازیں  پڑھتے رہتے کہ کہیں  قیام واجب مقدارسے کم نہ ہوجائے یہاں  تک کہ ان حضرات کے پاؤں  سوج جاتے تھے۔ پھر تخفیف ہوئی اور بعض مفسرین کے نزدیک ایک سال کے بعد اسی سورت کی آخری آیت کے اس حصے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘‘ سے یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض مفسرین کے نزدیک پانچ نمازوں  کی فرضِیّت  سے یہ حکم منسوخ ہو گیا۔یاد رہے کہ اس آیت میں  قیام سے مراد تہجد کی نماز ہے۔( خازن،المزمل،تحت الآیۃ:۲-۴، ۴ / ۳۲۰-۳۲۱، مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ص۱۲۹۲، تفسیر کبیر، المزمل، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۱۰ / ۶۸۱-۶۸۲، ملتقطاً)

اُمّت کے حق میں  تَہَجُّد کی فرضِیَّت منسوخ ہو چکی ہے:

            اب رہی یہ بات کہ تَہَجُّد کی فرضِیَّت کس کے لئے منسوخ ہوئی اس کے بارے میں  علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرما تے ہیں : ا سلام کے ابتدائی دور میں  سورۂ مُزَّمِّل کی ان آیات کی وجہ سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اُمّت پر تہجد کی نماز فرض تھی،پھر تخفیف کی گئی اور پانچ نمازوں  کی فرضِیَّت سے امت کے حق میں  تہجد کا وجوب منسوخ ہو گیا اور ان کے لئے تہجد کی نماز ادا کرنا مُستحب ہو گیا جبکہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے اس کا وجوب باقی رہا،اس کی دلیل یہ آیتِ مبارکہ ہے:

’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‘‘(بنی اسرائیل:۷۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھویہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔

            یعنی آپ پر اللّٰہ تعالیٰ نے جو اور عبادات فرض کی ہیں  ان کے ساتھ ساتھ مزید تہجد کی نماز پڑھنا بھی خاص آپ کے لئے فرض ہے۔ (خازن، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ۴ / ۳۲۱)

             جمہور مفسرین اور فقہاء کے نزدیک سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فرض نمازوں  کے علاوہ نمازِ تہجد کی فرضِیَّت بھی باقی رہی جبکہ امت کے حق میں  منسوخ ہوئی اور دلائل کی رُو سے بھی یہی صحیح ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  ’’ قولِ جمہور ،مذہب ِمختار ومنصور ،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کے حق میں  (تہجد کی) فرضِیَّت (کا) ہے۔ اسی پرظاہر ِقرآنِ عظیم شاہد اور اسی طرف حدیث ِمرفوع وارِد۔

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : ’’یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا‘‘ اللّٰہ تعالیٰ کافرمان ہے: ’’اے چادر اوڑھنے والے! رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔(ت)

            وَقَالَ تَعَالٰی : ’’وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ‘‘ اور ارشاد فرمایا: ’’اور رات کے کچھ حصے میں  تہجد پڑھو۔( بنی اسرائیل۷۹)

            ان آیتوں  میں  خاص حضورِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ کو امر ِالٰہی ہے، اور امرا ِلٰہی مفید ِوجوب، اور اللّٰہ تعالیٰ کا ’’نَافِلَةً‘‘ فرمانا اس وجوب کے مُنافی نہیں  کیونکہ ’’نَافِلَةً‘‘  کا معنی ہے زائدہ، اب اس آیت کامعنی یہ ہوگا کہ آپ کے فرائض یادرجات میں  یہ اضافہ ہے کہ آپ پر یہ لازم واجب ہے کیونکہ فرائض سب سے بڑے درجے اور فضیلت پر فائز کرنے کاسبب بنتے ہیں ، بلکہ اس کی تائید اللّٰہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’’لَّكَ ‘‘ سے ہورہی ہے۔ امام ابنِ ہمام فرماتے ہیں  کہ بعض اوقات مجرور (یعنی حرف ’’ک‘‘) کے ساتھ مُقَیَّدکرنا اسی بات کافائدہ دیتاہے (یعنی یہ فرائض میں  آپ کے لئے اضافہ ہے) کیونکہ مُتَعارَف نوافل صرف آپ ہی کے لئے نہیں  بلکہ اس میں  آپ اور دیگر لوگ مُشْتَرَک ہیں ۔(ت)( فتاوی رضویہ، باب الوتر والنوافل، ۷ / ۴۰۲-۴۰۳)

            اور مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اس مسئلے کی تحقیق کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’صحیح یہ ہے نمازِ تہجد حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر نمازِ پنجگانہ کی فرضیت کے بعد بھی فرض رہی۔( نزہۃ القاری، کتاب التہجد، ۲ / ۶۸۳)

            اور مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’نمازِ تہجد سَیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ پر فرض تھی،جمہور کا یہی قول ہے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی امت کے لئے یہ نماز سنت ہے۔( خزائن العرفان، بنی اسرا ئیل، تحت الآیۃ: ۷۹، ص۵۴۱)

             جبکہ بعض مفسرین کے نزدیک امت کی طرح نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھی تہجد کی فرضیت منسوخ ہو گئی تھی۔

{اَوْ زِدْ عَلَیْهِ: یا اس پر کچھ اضافہ کرلو۔} صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’جو شخص دو تہائی رات سونا چاہے اور ایک تہائی عبادت کرنا چاہے تو اسے افضل یہ ہے کہ وہ رات کے پہلے اورآخری تہائی حصے میں  سوئے اور درمیان کے تہائی حصے میں  عبادت کرے اور اگر آدھی رات میں  سونا چاہتا ہے اور آدھی رات میں  جاگنا تو بعد والی آدھی رات میں  عبادت کرنا افضل ہے کہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ رب عَزَّوَجَلَّ ہر رات میں  جب پچھلی تہائی باقی رہتی ہے آسمانِ دنیا پرخاص تجلّی فرماتا ہے اور فرماتا ہے ’’ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کروں ، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے دوں ، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی بخشش کر دوں ۔( مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا،باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل والاجابۃ فیہ،ص۳۸۱،الحدیث: ۱۶۸(۷۵۸))

            اور سب سے بڑھ کر تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے طریقے کے مطابق نماز ادا کرنا ہے،جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سب نمازوں  میں  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو زیادہ محبوب نمازِ داؤد ہے کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات عبادت کرتے پھر چھٹے حصے میں  سوتے تھے(بخاری، کتاب احادیث الانبیائ، باب احبّ الصلاۃ الی اللّٰہ صلاۃ داود۔۔۔ الخ،  ۲ / ۴۴۸، الحدیث: ۳۴۲۰)۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، سنن ونوافل کا بیان، نماز تہجد،۱ / ۶۷۸، ملخصاً)

{وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جُدا جُدا رہیں  ،جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مَدّات) کی ادائیگی کا خاص خیال رہے۔آیت کے آخر میں  ’’ تَرْتِیْلًا‘‘ فرما کر اس بات کی تاکید کی جا رہی ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے کے لئے ترتیل کے ساتھ تلاوت کرنا انتہائی ضروری ہے۔( مدارک، المزمل، تحت الآیۃ: ۴، ص۱۲۹۲)

            حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) قرآن پڑھنے والے سے کہا جائے گا:پڑھتا جا اور ترقی کی منازل طے کرتا جا اور اس طرح ٹھہر کر پڑھ جس طرح دنیا میں  ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا،جہاں  تو آخری آیت پڑھے گا اسی کے پاس تیری منزل ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۱۸-باب، ۴ / ۴۱۹، الحدیث: ۲۹۲۳)

قرآنِ پاک کی قراء ت سے متعلق چند اَحکام:

            یہاں  آیت کی مناسبت سے قرآنِ مجید کی قراء ت سے متعلق 4ضروری اَحکام ملاحظہ ہوں ،

 (1)…تجوید قرآنِ پاک کی آیت،مُتَواتِر اَحادیث،صحابہ ٔکرام، تابعین اور تمام ائمہ ٔکرام کے مکمل اِجماع کی وجہ سے حق اور واجب اور اللّٰہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کا علم ہے، اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ‘‘ اسے مُطْلَقاً ناحق بتانا کلمہ ٔکفر ہے۔(فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۲۲-۳۲۳، ملخصاً)

 (2)… قرآنِ پاک کو اتنی تجوید سے پڑھنا فرضِ عین ہے جس سے حروف صحیح ادا ہوں  اور غلط پڑھنے سے بچے۔( فتاوی رضویہ، ۶ / ۳۴۳، ملخصاً)

(3)…جس سے حروف صحیح ادا نہیں  ہوتے اس پر واجب ہے کہ حروف صحیح ادا کرنے کی رات دن پوری کوشش کرے اور اگر نماز میں  صحیح پڑھنے والے کی اِقتدا کر سکتا ہو تو جہاں  تک مُمکن ہو اس کی اقتدا کرے یا وہ آیتیں  پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتا ہو اور یہ دونوں  صورتیں  نا ممکن ہوں  تو کوشش کے زمانے میں  اس کی اپنی نماز ہو جائے گی اور اگر کوشش بھی نہیں  کرتا تو اس کی خود بھی نماز نہیں  ہوگی دوسرے کی اس کے پیچھے کیا ہوگی۔ آج کل عام لوگ اس میں  مبتلا ہیں  کہ غلط پڑھتے ہیں  اور صحیح پڑھنے کی کوشش نہیں  کرتے ان کی اپنی نمازیں  باطل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ سوم، امامت کا بیان، امامت کا زیادہ حقدار کون ہے،۱ / ۵۷۰-۵۷۱، ملخصاً)

(4)…فرضوں  میں  ٹھہر ٹھہر کر قراء ت کی جائے ، تراویح میں  مُتَوَسِّط انداز پر اور رات کے نوافل میں  جلد پڑھنے کی اجازت ہے، لیکن ایسا پڑھے کہ سمجھ میں  آسکے یعنی کم سے کم مد کا جو درجہ قاریوں  نے رکھا ہے اس کو ادا کرے، ورنہ حرام ہے، اس لیے کہ ترتیل سے قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ آج کل کے اکثر حُفّاظ اس طرح پڑھتے ہیں  کہ مد کا ادا ہونا تو بڑی بات ہے یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کسی لفظ کا پتہ بھی نہیں  چلتا ہے نہ حروف کی تصحیح ہوتی ہے، بلکہ جلدی میں  لفظ کے لفظ کھا جاتے ہیں  اور اس پرایک دوسرے سے فخر ہوتا ہے کہ فلاں  اس قدر جلد پڑھتا ہے، حالانکہ اس طرح قرآن مجید پڑھنا حرام اور سخت حرام ہے۔( بہار شریعت، حصہ سوم، قرآن مجید پڑھنے کا بیان، ۱ / ۵۴۷، ملخصاً)

            ایک اور مقام پر صدرُ الشَّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنے زمانے کے حفاظ کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  ’’ افسوس صد افسوس کہ اس زمانہ میں حُفّاظ کی حالت نہایت ناگُفتہ بہ ہے، اکثر تو ایسا پڑھتے ہیں  کہ یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کچھ پتہ نہیں  چلتا ،الفاظ و حروف کھا جایا کرتے ہیں  ،جو اچھا پڑھنے والے کہے جاتے ہیں  اُنھیں  دیکھیے تو حروف صحیح نہیں  ادا کرتے ،ہمزہ، الف، عین اور ذ، ز، ظ اور ث، س، ص، ت، ط وغیرہا حروف میں  فرق نہیں  کرتے جس سے قطعاً نماز ہی نہیں  ہوتی فقیر کو انھیں  مصیبتوں  کی وجہ سے تین سال ختمِ قرآن مجید سننا نہ ملا۔ مولا عَزَّوَجَلَّ مسلمان بھائیوں  کو توفیق دے کہ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ  (یعنی جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک نازل فرمایا اسی طرح) پڑھنے کی کوشش کریں ۔ (بہار شریعت، حصہ چہارم، تراویح کا بیان، ۱ / ۶۹۱-۶۹۲)

            اور فی زمانہ حُفّاظ کا تو جو حال ہو چکا ہے وہ تو ایک طرف عوام اور مَساجد کی انتظامیہ کا حال یہ ہو چکا ہے کہ تراویح کے لئے اس حافظ کو منتخب کرتے ہیں  جو قرآنِ پاک تیزی سے پڑھے اور جتنا جلدی ہو سکے تراویح ختم ہو جائے اور اس امام کے پیچھے تراویح پڑھنے سے جو تجوید کے مطابق قرآن پڑھتا ہے ا س لئے دور بھاگتے ہیں  کہ یہ دیر میں  تراویح ختم کرے گا اور بعض جگہ تو یوں  ہوتا ہے کہ تراویح پڑھانے والے کو مسجد انتظامیہ کی طرف سے ٹائم بتا دیا جاتا ہے کہ اتنے منٹ میں  آپ کو تراویح ختم کرنی ہے اور اگراس وقت سے 5منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو حافظ صاحب کوسنا دیا جاتا ہے کہ حضرت آج آپ نے اتنے منٹ لیٹ کر دی آئندہ خیال رکھئے گا۔اے کاش کہ مسلمان اپنے وقت کا خیال کرنے کی بجائے اپنی نماز کی حفاظت کی فکر کریں ۔اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔

          نوٹ: ترتیل کی حدود،ان کی تفصیلات اور اَحکام جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد نمبر6صفحہ 275 تا 282 کا مطالعہ کیجئے۔