banner image

Home ur Surah Al Qalam ayat 18 Translation Tafsir

اَلْقَلَم

Al Qalam

HR Background

وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ(18)فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَ هُمْ نَآىٕمُوْنَ(19)فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ(20)فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ(21)اَنِ اغْدُوْا عَلٰى حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ(22)فَانْطَلَقُوْا وَ هُمْ یَتَخَافَتُوْنَ(23)اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ(24)وَّ غَدَوْا عَلٰى حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ(25)فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْۤا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ(26)بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ(27)قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ(28)قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(29)فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ(30)قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ(31)عَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ(32)

ترجمہ: کنزالایمان اور اِنْ شَآءَ اللہ نہ کہا۔ تو اس پر تیرے رب کی طرف سے ایک پھیری کرنے والا پھیرا کر گیا اور وہ سوتے تھے۔ تو صبح رہ گیا جیسے پھل ٹوٹا ہوا۔ پھر انہوں نے صبح ہوتے آپس میں ایک دوسرے کو پکارا۔ کہ تڑکے اپنی کھیتی کوچلو اگر تمہیں کاٹنی ہے۔ تو چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں آنے نہ پائے۔ اور تڑکے چلے اپنے اس ارادہ پر قدرت سمجھتے۔ پھر جب اسے دیکھا بولے بے شک ہم راستہ بہک گئے۔ بلکہ ہم بے نصیب ہوئے۔ ان میں جو سب سے غنیمت تھا بولا کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ بولے پاکی ہے ہمارے رب کو بے شک ہم ظالم تھے۔ اب ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتا متوجہ ہوا۔ بولے ہائے خرابی ہماری بے شک ہم سرکش تھے۔ اُمید ہے کہ ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور اِنْ شَآءَ اللہ نہیں کہہ رہے تھے۔ تو اس باغ پر تیرے رب کی طرف سے ایک پھیری کرنے والا پھیری کر گیا جبکہ وہ سو رہے تھے۔ تو صبح کے وقت وہ باغ سیاہ رات کی طرح ہوگیا۔ پھر انہوں نے صبح ہوتے ایک دوسرے کو پکارا۔ کہ اگر تم کاٹنا چاہتے ہو تو صبح سویرے اپنی کھیتی پر چلو۔ تو وہ چلے اور آپس میں آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے۔ کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے پاس باغ میں آنے نہ پائے۔ اور وہ خود کو روکنے پر قادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے۔ پھر جب انہوں نے اس باغ کو دیکھا توکہنے لگے:بیشک ہم ضرور راستہ بھٹک گئے ہیں ۔ بلکہ ہم محروم ہوگئے ہیں ۔ ان میں جو بہتر تھا اس نے کہا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہم ظالم تھے۔ پھر وہ ایک دوسرے کی طرف ملامت کرتے متوجہ ہوئے۔ بولے: ہائے ہماری خرابی، بیشک ہم سرکش تھے۔ امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدل دے یقینا(اب) ہم اپنے رب کی طرف ہی رغبت رکھنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَا یَسْتَثْنُوْنَ: اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ نہیں  کہہ رہے تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 14آیات میں  اس واقعے کا بقیہ حصہ بیان کیا گیا ہے،اس کاخلاصہ یہ ہے کہ انہوں  نے صبح سویرے پھل توڑنے کی قسم کھائی اور اِنْ شَآءَ اللّٰہ کہنا بھول گئے۔ پھر یہ لوگ تو قسمیں  کھا کر سوگئے اور ا س باغ پر اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے رات میں  ایک آگ آئی جو اسے تباہ کر گئی اور صبح کے وقت تک وہ باغ جل کرسیاہ رات کی طرح ہوگیا اوران لوگوں کو ا س کی کچھ خبر نہ ہوئی ۔یہ صبح سویرے اٹھے اور ایک دوسرے کو پکارا کہ اگر تم باغ کا پھل کاٹنا چاہتے ہو تو صبح منہ اندھیرے اپنی کھیتی پر چلو۔ چنانچہ وہ لوگ باغ کی طرف چلے اور ا س دوران آپس میں  آہستہ آہستہ کہتے جاتے تھے کہ ہرگز آج کوئی مسکین تمہارے باغ میں  آنے نہ پائے اوروہ اپنے آپ کو اس ارادہ پرقادرسمجھتے ہوئے صبح سویرے چلے کہ کسی مسکین کو اندرنہ آنے دیں  گے اور وہ تمام پھل اپنے قبضہ میں  لائیں  گے ۔پھر جب باغ کے قریب پہنچے اور انہوں  نے اس باغ کو دیکھا کہ وہ جل چکا ہے اور اس میں  پھل کا نام ونشان نہیں  توکہنے لگے:بیشک ہم کسی اور باغ پر پہنچ گئے ہیں  کیونکہ ہمارا باغ تو بہت پھل دار ہے ۔پھر جب غور کیا اور اس کے درو دیوار کو دیکھا اور پہچان لیا کہ یہ اپنا ہی باغ ہے تو کہنے لگے: ہم راستہ نہیں  بھولے بلکہ حق دار مسکینوں  کو روکنے کی نیت کر کے ہم خوداس کے پھل سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ان میں  سے جو عقلمند تھا اس نے کہا: کیا میں  تم سے نہیں  کہتا تھا کہ تم اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح کیوں  نہیں  کرتے اور اس برے ارادے سے توبہ کیوں  نہیں کرتے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کیوں  نہیں  بجالاتے ؟ اس پرسب نے کہا:ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ پاک ہے ،بیشک ہم ظالم تھے ، اوراس وقت وہ ملامت کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور آخر کار ان سب نے اعتراف کیا کہ ہم سے خطا ہوئی اور ہم حد سے تجاوُز کرگئے۔وہ کہنے لگے: ہائے ہماری خرابی، بے شک ہم سرکش تھے کہ ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر نہ کیا اور اپنے باپ دادا کے نیک طریقے کو چھوڑدیا، امید ہے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہمیں  اس سے بہتر بدل دے ،اب ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی رغبت رکھنے والے ہیں  اور اس کے عَفْوو کرم کی امید رکھتے ہیں  ۔ان لوگوں  نے سچے دل سے اور اخلاص کے ساتھ توبہ کی تو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں  اِس کے بدلے اُس سے بہتر باغ عطا فرمایا جس کا نام’’ باغِ حیوان‘‘ تھا اور اس میں  کثیر پیداوارہوئی۔( خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ۴ / ۲۹۶-۲۹۷، مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ۱۸-۳۲، ص۱۲۶۸-۱۲۶۹، ملتقطاً)