Home ≫ ur ≫ Surah Al Qalam ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ: تم اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں ہو۔} کفار نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں (گستاخی کرتے ہوئے) کہا:
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ‘‘(حجر:۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے! بیشک تم مجنون ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرما کر ان کی بد گوئی کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: ’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، قلم اور ان کے لکھے کی قسم! آپ مجنون نہیں ہیں کیونکہ آپ پر آپ کے رب تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کا لطف و کرم آپ کے شاملِ حال ہے ،اس نے آپ پر انعام و احسان فرمائے ،نبوت اور حکمت عطا کی ، مکمل فصاحت ، کامل عقل، پاکیزہ خصائل اور پسندیدہ اَخلاق عطا کئے، مخلوق کے لئے جس قدر کمالات ہونا ممکن ہیں وہ سب علیٰ وجہِ الکمال عطا فرمائے اور ہر عیب سے آپ کی بلند صفات ذات کو پاک رکھا اوران چیزوں کے ہوتے ہوئے آپ مجنون کیسے ہو سکتے ہیں ۔(خازن، ن، تحت الآیۃ: ۲، ۴ / ۲۹۳،تفسیر کبیر، القلم، تحت الآیۃ: ۲، ۱۰ / ۶۰۰،ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و شان:
یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار کی جاہلانہ گفتگو کا ذکر ہے جس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدبخت طرح طرح سے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں سخت کلامی اوربیہودہ گوئی کرتے اور وہ مُقَدّس حضرات اپنے عظیم حِلم اور فضل کے لائق انہیں جواب دیتے، لیکن حضورسیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ والا میں کفار نے جو زبان درازی کی ہے اس کا جواب زمین و آسمان کی سلطنت کے مالک رب تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوبِ اکرم، مطلوبِ اعظم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے خوددفاع فرمایا ہے اورطرح طرح سے حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی (کفار کے الزامات سے) پاکی اور براء ت ارشاد فرمائی ہے اور بکثرت مقامات پر دشمنوں کے الزامات دور کرنے پر قسم یاد فرمائی ،یہاں تک کہ غنی اور غنی کرنے والے رب تعالیٰ نے ہر جواب سے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے نیاز کر دیا،اور اللّٰہ تعالیٰ کا جواب دینا حضورِ اَنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خود جواب دینے سے بدرجَہا حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے بہتر ہوااور یہ وہ مرتبۂ عُظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ۔( فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۲-۱۶۴، ملخصاً)
سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک عقل:
نیز کفار کے اس اعتراض سے ان کی جہالت اور بیوقوفی بھی واضح ہے کیونکہ مجنون وہ ہوتا ہے جس کی عقل سلامت نہ رہے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبارک تو ایسی تھی کہ کسی بشر میں اس کی مثال ملنا ممکن ہی نہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے جیسی عقل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا فرمائی ہے ویسی کسی اور کو عطا ہی نہیں کی تو پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرنا جہالت کے سوا اور کیا ہے۔عقل کی تعریف اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل مبار ک کے بارے میں بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’عقل کی حقیقت کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، (لغت کی کتاب) قاموس میں کہا گیا ہے کہ عقل،چیزوں کے حسن و قباحت اور ان کے کمال و نقصان کی صفات کے علم کا نام ہے اور یہ علم عقل کے نتائج اور ثمرات سے حاصل ہوتا ہے اور عقل ایسی قوت ہے جو اس علم کا مَبداء اور سرچشمہ ہے۔اور بیان کیا کہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی حرکات و سَکَنات میں محمود ہَیئت کا نام عقل ہے،حالانکہ یہ بھی عقل کے خواص اور آثار کی قسم سے ہے۔ (عقل کی تعریف کے بارے میں ) قولِ حق جسے علماء نے بیان کیا ،یہ ہے کہ عقل ایک روحانی نور ہے جس سے ضروری اور نظری علوم معلوم ہوتے ہیں اور عقل کے وجودکا آغاز بچے کی پیدائش کے ساتھ ہے،پھر وہ رفتہ رفتہ نشو و نَما پاتا ہے یہاں تک کہ بالغ ہونے کے وقت کامل ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عقل اور علم میں کمال کے اس مرتبے پر تھے کہ آپ کے علاوہ کوئی بشر اس درجے تک نہیں پہنچا،اللّٰہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فیضان فرمایا ان میں سے بعض پر عقول و اَفکار حیران ہیں اور جو بھی آپ کے اَحوال کی کَیفِیَّتوں اور آپ کی صفاتِ حمیدہ اور محاسنِ اَفعال کی تلاش و جُستجو کرتا ہے اور جوامع الکَلِم، حسنِ شمائل،نادر ولطیف خصائل،لوگوں کی سیاسی تدبیر،شرعی اَحکام کا اظہار وبیان،آدابِ جلیلہ کی تفاصیل،اَخلاقِ حسنہ کی ترغیب و تحریص،آسمانی کتابوں اور ربانی صحیفوں پر آپ کا عمل،گزشتہ امتوں کے تاریخی حالات،سابقہ دنوں کے اَحوال،کہاوتوں اور ان کے وقائع اور احوال کا بیان،اہلِ عرب جو کہ چوپایوں اور درندوں کی مانند تھے، جن کی طبیعتیں جہل و جفا اور نادانی و شقاوت کی بنا پر مُتَنَفِّر اور دور رہنے والی تھیں ، ان کی اصلاح و تدبیر،ان کے ظلم و جفا اور ایذا و تکلیفوں پر آپ کا صبر و تحَمُّل،پھر ان کوعلم و عمل،حسنِ اَخلاق اور اعمال میں انتہائی درجے تک پہنچانا،انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے بہرہ ور کرناپھر کس طرح ان کا ان سعادتوں کو اپنے نفسوں پر اختیار کرنا اوران کا اپنے گھروں ،دوستوں ،عزیزوں کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی خاطر چھوڑ دینا۔ ان سب چیزوں کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو وہ جان لے گا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقل کامل اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عمل کس مرتبہ و مقام پر تھا۔جو بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحوال شریف کو ابتداء سے انتہاء تک مطالعہ کرے گا وہ دیکھے گا کہ پروردگارِ عالَم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کتنا علم عطا فرمایا اور آپ پر ا س کا کتنا فیضان ہے اورمَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ یعنی گزشتہ و آئندہ کے علوم و اَسرار بدیہی طور پر کس طرح حاصل ہیں تو وہ شک و شُبہ اور وہم و خیال کے بغیر علمِ نبوت کو جان لے گا۔چنانچہ حق تعالیٰ نے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کی مدح و ثنا اور وفورِ علم کے بارے میں فرمایا:
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا‘‘(نساء:۱۱۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللّٰہ کافضل بہت بڑا ہے۔
حضرت وہب بن منبہ رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ تابعی ، سندکے حوالے سے قابلِ اعتماد ،ہمیشہ سچ بولنے والے عالِم، صاحب ِکتب واَخبار تھے’’فرماتے ہیں کہ میں نے مُتَقَدِّمین کی 71کتابیں پڑھی ہیں ،میں نے ان تما م کتابوں میں پایا کہ حق سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی نے دنیا کے آغاز سے لے کر دنیا کے انجام تک تما م لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عقلِ مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے میں ایک ذرہ ہے ،آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔
عوارفُ المعارف میں بعض علماء سے نقل کیا ہے’’پوری عقل کے سو حصے ہیں ،ان میں سے ننانوے حصے حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں اور ایک حصہ تما م مسلمانوں میں ہے۔
بندۂ مسکین کہتا ہے (یعنی شیخ عبد الحق محدّثِ دہلوی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ) کہ اگر وہ یوں کہیں کہ عقل کے ہزار حصے ہیں جن میں سے نو سو ننانوے حصے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں میں ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، ا س لئے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بے انتہاء کمال ثابت ہے تو (آپ کی شان میں معبود ہونے کے علاوہ) جو کچھ بھی کہا جائے گا بجا ہو گا۔اس پر اگر حاسدوں کا سینہ جلے اور گمراہوں کادل تنگ ہوتو اس کا کوئی علاج نہیں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ ‘‘(کوثر:۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔
اور فرمایا: ’’ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘‘(کوثر:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
(مدارج النبوہ، باب دوم دربیان اخلاق وصفا، وصل دربیان عقل وعلم، ۱ / ۵۳)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
ملکِ خاصِ کبریا ہو
مالکِ ہر ما سوا ہو
کوئی کیا جانے کہ کیا ہو
عقلِ عالَم سے ورا ہو