Home ≫ ur ≫ Surah Al Qamar ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً: اور اگر کفار کوئی نشانی دیکھتے ہیں ۔} اس آیت میں کفارِ مکہ کی ایک عادت بیان کی گئی کہ وہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت اور نبوت پر دلالت کرنے والی کوئی نشانی جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہونا یا کوئی اور نشانی دیکھتے ہیں تو اس نشانی میں غور کر کے اس کی حقیقت جاننے ،اس کی تصدیق کرنے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے سے منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں : محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) جو کچھ ہمیں دکھا رہے ہیں یہ تو کوئی دائمی طاقتورجادو ہے۔( مدارک، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۸۵، روح البیان، القمر، تحت الآیۃ: ۲، ۹ / ۲۶۷، ملتقطاً)
کفارِ مکہ کی ہٹ دھرمی:
اس آیت میں کفارِ مکہ کا جو حال بیان ہوا کہ ان کا مطالبہ پورا بھی کر دیا جائے تو بھی یہ ایمان نہیں لاتے ،اس کا بیان اور آیات میں بھی کیا گیا ہے،جیسے کفارِ مکہ نے کہا کہ
’’ وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ‘‘( بنی اسرائیل:۹۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم تمہارے چڑھ جانے پر بھی ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم پر ایک کتاب نہ اتارو جوہم پڑھیں ۔
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ‘‘(انعام:۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم کاغذ میں کچھ لکھا ہوا آپ پر اتار دیتے پھر یہ اسے چھو لیتے تب بھی کافر کہہ دیتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔
کفارِ مکہ نے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا:
’’ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا‘‘(بنی اسرائیل:۹۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ہم پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا تم نے کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ وَ اِنْ یَّرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْكُوْمٌ‘‘(طور:۴۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر وہ آسمان سے کوئی ٹکڑا گرتاہوا دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ تہہ درتہہ بادل ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ(۱۴) لَقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ‘‘(حجر:۱۴،۱۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کے لیے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیتے تاکہ دن کے وقت اس میں چڑھ جاتے۔جب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری نگاہوں کو بند کردیا گیا ہے بلکہ ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کیا ہواہے۔
کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مُردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔ ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ‘‘(انعام:۱۱۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتاردیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں ۔