Home ≫ ur ≫ Surah Al Qasas ≫ ayat 15 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ﱪ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ-فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ-فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(15)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا: اور شہروالوں کی نیند کے وقت شہرمیں داخل ہوئے۔} آیت کے اس حصے سے متعلق یہاں دو باتیں ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جس شہر میں داخل ہوئے ا س کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ وہ شہر ’’مَنْف‘‘ تھا جو کہ مصر کی حدود میں واقع ہے ۔اس لفظ کی اصل مَافَہ ہے، قبطی زبان میں اس لفظ کے معنی ہیں 30۔یہ وہ پہلا شہر ہے جو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر طوفان کاعذاب آنے کے بعد آباد ہوا۔ اس سرزمین میں مصربن حام نے اقامت کی، یہ اقامت کرنے والے کل 30 افرادتھے اس لئے اس شہر کا نام مافہ ہوا، پھر عربی زبان میں اسے ’’مَنْف‘‘ پکارا جانے لگا۔دوسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر حابین تھا جو مصر سے دو فرسنگ (یعنی 6 میل) کے فاصلہ پر واقع تھا ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ وہ شہر عین شمس تھا۔( جمل، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۶ / ۱۳، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)
(2)…شہرمیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پوشیدہ طور پر داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جوان ہوئے تو آپ نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کا رد شروع کیا اور فرعونیوں کے دین کی ممانعت فرمائی ۔ بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کی پیروی کیا کرتے تھے۔آہستہ آہستہ اس بات کا چرچا ہوا اور فرعونیوں نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تلاش شرع کر دی ،اس لئے آپ جس بستی میں داخل ہوتے تو ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں کے لوگ غفلت میں ہوں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ (جس دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں داخل ہوئے) وہ دِن عید کا تھا اورلوگ اپنے لَہو و لَعب میں مشغول تھے۔ (یعنی غفلت سے مراد سونا نہیں بلکہ ان کا کھیل تماشے میں مشغول ہونا تھا۔)( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، ملتقطاً)
{فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ: تو اس میں دو مردوں کو لڑتے ہوئے پایا۔} یعنی جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں دو مردوں کو لڑتے ہوئے پایا۔ ان میں سے ایک حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں یعنی فرعون کی قوم قِبطیوں میں سے تھا ،یہ اسرائیلی پر جَبر کر رہا تھا تاکہ وہ اس پر لکڑیوں کا انبار لاد کر فرعون کے کچن میں لے جائے ،چنانچہ جو مرد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گروہ میں سے تھا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کے خلاف مدد مانگی جو اس کے دشمنوں سے تھا، تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اس قِبطی سے کہا :تو اسرائیلی پر ظلم نہ کر اور اس کو چھوڑ دے ،لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو اس ظلم سے روکنے کے لئے گھونسا مارا تووہ گھونسا کھاتے ہی مر گیا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے ریت میں دفن کر دیا اور آپ کا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا،پھر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا،یہ کام شیطان کی طرف سے ہواہے اور بیشک وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں ’’هٰذَا‘‘ سے اس قتل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بلا ارادہ ہوا ، یعنی قبطی کو قتل کرنے کا کام (در حقیقت ) شیطان کی طرف سے ہوا۔ (خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ۳ / ۴۲۷، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۸۶۴)اس بات کی مزید وضاحت اگلی آیت کی تفسیر میں موجود ہے۔