Home ≫ ur ≫ Surah Al Qasas ≫ ayat 26 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ٘-اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(26)قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(27)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا یٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ: ان میں سے ایک نے کہا: اے میرے باپ!ان کو ملازم رکھ لو۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کھاناوغیرہ کھاچکے اورگفتگو بھی کرلی تو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ایک بیٹی نے عرض کی،اباجان آپ انھیں اجرت پر ملازم رکھ لیں کہ یہ ہماری بکریاں چرایا کریں اور یہ کام ہمیں نہ کرنا پڑے، بے شک اچھاملازم وہی ہوتاہے جو طاقتور بھی ہو اور امانتدار بھی ہو۔اس پرحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحب زادی سے دریافت کیا کہ تمہیں ان کی قوت و امانت کا کیسے علم ہوا؟ صاحب زادی نے عرض کی : قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں نے تنہا کنوئیں پر سے وہ پتھر اُٹھالیا جس کو دس سے کم آدمی نہیں اُٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ اُنہوں نے ہمیں دیکھ کر سرجھکالیا اور نظر نہ اُٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم پیچھے چلو ایسا نہ ہو کہ ہوا سے تمہارا کپڑا اڑے اور بدن کا کوئی حصہ نمودار ہو۔ یہ سن کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ اس مہر پرتمہارا نکاح کردوں کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ اضافہ تمہاری طرف سے مہربانی ہو گی اور تم پر واجب نہ ہو گا اور میں تم پرکوئی اضافی مشقت نہیں ڈالنا چاہتا۔ اِنْ شَآءَاللہ عنقریب تم مجھے نیکوں میں سے پاؤ گے تو میری طرف سے معاملے میں اچھائی اور عہد کو پورا کرنا ہی ہو گا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و مددپر بھروسہ کرنے کے لئے اِنْ شَآءَ اللہ فرمایا۔( بغوی، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۳۸۰، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۸۶۷-۸۶۸، ملتقطاً)
سورۂ قصص کی اِس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئیں ، یہ کہ اگرچہ سنت یہ ہے کہ پیغامِ نکاح لڑکے کی طرف سے ہو لیکن یہ بھی جائز ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے ہو۔ مزید یہ کہ لڑکی کے لئے مالدار لڑکا تلاش کرنے کی بجائے دیندار اور شریف لڑکا تلاش کیا جائے۔ جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مسافر تھے، مالدار نہ تھے، مگر آپ کی دینداری اور شرافت ملاحظہ فرما کر حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صاحبزادی کا نکاح آپ سے کردیا۔
صوفیاءِ کرام فرماتے ہیں کہ بظاہر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بکریاں چروانا تھا ، مگر درحقیقت ان کو اپنی صحبت ِپاک میں رکھ کر کَلِیْمُ اللہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا،لہٰذا یہ آیت صوفیاءِ کرام کے چِلّوں اور مرشد کے گھر رہ کر ان کی خدمت کرنے کی بڑی دلیل ہے۔