Home ≫ ur ≫ Surah Al Qasas ≫ ayat 58 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَاۚ-فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًاؕ-وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ(58)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ: اور کتنے شہر ہم نے ہلاک کردئیے۔} یہاں کفارِ مکہ کو ایسی قوموں کے خراب انجام سے خوف دلایا جارہا ہے جن کا حال اِن کی طرح تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پاتے اور شکر کرنے کی بجائے ان نعمتوں پر اِتراتے تو وہ اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے اور یہ ان کے مکان ہیں جن کے آثار اب بھی باقی ہیں اور عرب کے لوگ اپنے سفروں میں انہیں دیکھتے ہیں کہ ان مکانات میں ہلاک ہونے والوں کے بعد بہت کم رہائش رکھی گئی کہ کوئی مسافر یا راہ گزر ان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے ،پھر یہ اسی طرح خالی پڑے رہتے ہیں ۔ وہاں کے رہنے والے ایسے ہلاک ہوئے کہ ان کے بعد ان کا کوئی جانشین باقی نہ رہا اور اب اللہ تعالیٰ کے سوا ان مکانوں کا کوئی وارث نہیں کیونکہ مخلوق کی فنا کے بعد وہی سب کا وارث ہے ۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ص۸۷۵، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۴۳۷، ملتقطاً)
معاشرے کوامن و امان کا گہوارہ بنانے کاذریعہ:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے امن نصیب ہوتا اور نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی مخالفت سے ہلاکت ہوتی ہے،جبکہ کفار ِمکہ نے الٹا سمجھ لیا کہ حضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت سے بد امنی ہو گی اور مخالفت سے امن ملے گا حالانکہ تاریخ اس کے برعکس ہے اور تاریخ سے ادنیٰ سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت کی انہوں نے دنیا میں امن پایا اور وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہے اور جو لوگ اپنے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اطاعت سے رُوگَردانی کرتے رہے اور ان کی مخالفت پر کمر بستہ رہے وہ انتہائی خوفناک عذابوں کے ذریعے ہلاک کر دئیے گئے ۔اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے معاشرے میں پائی جانے والی بد امنی کی وجوہات اور اسباب پر بھی دل سے غور کرنا چاہئے اور بطورِ خاص اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے سوچناچاہئے کہ کہیں یہ ہمارا تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات اور احکامات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ تو نہیں ،اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہی ہے تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اطاعت نہ کرنے کی رَوِش کو ترک کر دیں اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری شروع کر دیں ، اِنْ شَآءَ اللہ برسوں نہیں ، مہینوں میں بلکہ دنوں میں ہمارا معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
گناہ کرنے میں لوگوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے میں لوگوں کی پکڑ اور ان کی سزا سے خوف کھانا جبکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے بے خوف ہونا کفار کا طریقہ ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے معاملے میں لوگوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرے اور اس سے کسی بھی حال میں بے پرواہ نہ ہو۔اعلیٰ حضرت امام ا حمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
چھپ کے لوگوں سے کئے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ارے او مجرم بے پَروا دیکھ
سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے