Home ≫ ur ≫ Surah Al Qasas ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتُهَاۚ-وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(60)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ: اور (اے لوگو!) جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے۔} یہاں بطورِ خاص کفارِ مکہ سے اور عمومی طور پر تمام لوگوں سے فرمایا گیا کہ اے لوگو! جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے تو وہ دُنْیَوی زندگی کا سازو سامان اور اس کی زینت ہے جس کی بقا بہت تھوڑی اور جس نے آخر کار فنا ہونا ہے اور جو ثواب اور آخرت کے مَنافع اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے والے ہیں کیونکہ یہ تمام پریشانیوں سے خالی اور کبھی ختم نہ ہونے والے ہیں ، تو کیا تم میں عقل نہیں کہ اتنی بات سمجھ سکو کہ جو چیزباقی رہنے والی ہے وہ فنا ہو جانے والی سے بہتر ہے اور تم بہتر چیز کو اختیار کر سکو اورا سے ترجیح دو جو ہمیشہ باقی رہے گی اور اس کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی۔( قرطبی، القصص،تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۲۲۷، الجزء الثالث عشر، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۸۷۶، خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۳ / ۴۳۷-۴۳۸، تفسیرطبری، القصص، تحت الآیۃ: ۶۰، ۱۰ / ۹۱، ملتقطاً)
آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والا نادان ہے:
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جو شخص دُنْیَوی سازوسامان،عیش وعشرت اور زیب وزینت کو اُخروی نعمتوں اور آسائشوں پر ترجیح دے وہ بے عقل اور نادان ہے کیونکہ وہ عارضی اور ختم ہو جانے والی چیز کو ا س پر ترجیح دے رہا ہے جو ہمیشہ رہنے والی اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہے ۔ایسے شخص کے لئے درج ذیل آیات میں بڑی عبرت ہے جو اصل کے اعتبار سے تو کفار کیلئے ہیں لیکن اپنے کئی پہلوؤں کے اعتبار سے مسلمانوں کیلئے بھی درسِ نصیحت و عبرت ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘(ہود:۱۵،۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو دنیا کی زندگی اوراس کی زینت چاہتا ہو توہم دنیا میں انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گےاورانہیں دنیا میں کچھ کم نہ دیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور دنیا میں جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب برباد ہوگیا اور ان کے اعمال باطل ہیں ۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسراء یل:۱۸،۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو جلدی والی (دنیا) چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کیلئے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم، مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الْكُبْرٰى٘ۖ(۳۴)یَوْمَ یَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰىۙ(۳۵)وَ بُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى(۳۶)فَاَمَّا مَنْ طَغٰىۙ(۳۷)وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَاۙ(۳۸)فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۳۹)وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰)فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى‘‘(نازعات:۳۴۔۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ عام سب سے بڑی مصیبت آئے گی۔ اس دن آدمی یاد کرے گا جو اس نے کوشش کی تھی۔ اور جہنم ہر دیکھنے والے کیلئے ظاہر کر دی جائے گی۔ تو وہ جس نے سرکشی کی۔ اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
لہٰذا اے انسان!
’’وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘(قصص۷۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ نے تجھ پر احسان کیا اور زمینمیں فساد نہ کر، بے شک اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔
افسوس!فی زمانہ مسلمانوں کی اکثریت بھی دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی بے عقلی اور نادانی کا شکار ہے اور ان میں سے بعض کا حال یہ ہوچکا ہے کہ دنیا کا ما ل حاصل کرنے کیلئے لوگوں کو دھمکیاں دینے ،انہیں اغوا کر کے تاوانوں کا مطالبہ کرنے ،اسلحے کے زور پر مال چھیننے حتّٰی کے مال حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کو جان تک سے مار دینے میں لگے ہوئے ہیں ، الغرض دنیا کا مال اوراس کا عیش و عشرت حاصل کرنا ان کی اَوّلین ترجیح بنا ہوا ہے اور اس کے لئے وہ ہر سطح پر جانے کو تیار ہیں اور اپنی آخرت سے متعلق انہیں ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے، اٰمین۔