banner image

Home ur Surah Al Qasas ayat 81 Translation Tafsir

اَلْقَصَص

Al Qasas

HR Background

فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ- فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(81)

ترجمہ: کنزالایمان تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ الله سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو الله کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ خود (اپنی) مدد کرسکا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  اس سے عذاب دور کر کے اس کی مدد کرتی اور نہ ہی وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بدلہ لے سکا۔( مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱)

قارون اور اس کے خزانوں  کو زمین میں  دھنسائے جانے کا واقعہ:

          قارون اور اس کے گھر کو زمین میں  دھنسانے کا واقعہ سیرت و واقعات بیان کرنے والے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد قربانیوں  کا انتظام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سپرد کر دیا۔ بنی اسرائیل اپنی قربانیاں  حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس لاتے اور وہ ان قربانیوں  کو مَذبَح میں  رکھتے جہاں  آسمان سے آگ اتر کر ان کو کھالیتی۔قارون کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس منصب پر حسد ہوا اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: رسالت تو آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، میں  کچھ بھی نہ رہا حالانکہ میں  توریت کا بہترین قاری ہوں  ،میں  اس پر صبر نہیں  کرسکتا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’یہ منصب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میں  نے خود سے نہیں  دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیا ہے۔ قارون نے کہا: خدا کی قسم !میں  آپ کی تصدیق نہ کروں  گا جب تک آپ مجھے اس بات کا ثبوت نہ دکھا دیں ۔اس کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کے سرداروں  کو جمع کیا اور ان سے فرمایا: ’’اپنی لاٹھیاں  لے آؤ۔وہ لاٹھیاں  لے آئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سب کو اپنے خیمے میں  جمع کیا اور رات بھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں  کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا سرسبز و شاداب ہوگیا اور اس میں  پتے نکل آئے ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اے قارون! تو نے یہ دیکھا ؟قارون نے کہا: یہ آپ کے جادو سے کچھ عجیب نہیں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے رہے لیکن وہ آپ کو ہر وقت ایذا دیتا تھا اور اس کی سرکشی و تکبر اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی۔ ایک مرتبہ اس قارون نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اس کی دیواروں  پر سونے کے تختے نصب کئے ،بنی اسرائیل صبح و شام اس کے پاس آتے، کھانے کھاتے، باتیں  بناتے اور اُسے ہنسایا کرتے تھے۔

            جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو قارون حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا تو اُس نے آپ سے طے کیا کہ درہم و دینار اورمویشی وغیرہ میں  سے ہزارواں  حصہ زکوٰۃ دے گا، لیکن جب گھر جا کراس نے حساب کیا تو اس کے مال میں  سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا ،یہ دیکھ کراس کے نفس نے اتنی بھی ہمت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو جمع کرکے کہا : تم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہر بات میں  اطاعت کی ،اب وہ تمہارے مال لینا چاہتے ہیں  تو تم اس بارے میں  کیا کہتے ہو؟ اُنہوں  نے کہا: آپ ہمارے بڑے ہیں  ،جو آپ چاہیں  حکم دیجئے۔ قارون نے کہا: فلانی بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائے،ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چھوڑ دیں  گے۔ چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار دینار ،ایک ہزار درہم اور بہت سے وعدے کرکے یہ تہمت لگانے پر تیار کرلیا اور دوسرے دن بنی اسرائیل کو جمع کرکے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور کہنے لگا: بنی اسرائیل آپ کا انتظار کررہے ہیں  کہ آپ انہیں  وعظ و نصیحت فرمائیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں  کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل !جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں  گے، جو بہتان لگائے گا اسے 80 کوڑے لگائے جائیں  گے اور جو زنا کرے گا اوراس کی بیوی نہیں  ہے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں  گے اور اگر بیوی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں  تک کہ مرجائے ۔یہ سن کرقارون کہنے لگا : یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں  ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’خواہ میں  ہی کیوں  نہ ہوں ۔ قارون نے کہا: بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں  بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے ۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ’’اسے بلاؤ۔ وہ آئی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ ا اور اس میں  راستے بنائے اور توریت نازل کی، تو جو بات سچ ہے وہ کہہ دے ۔وہ عورت ڈر گئی اور اللہ تعالیٰ کے رسول پر بہتان لگا کر اُنہیں  ایذاء دینے کی جرأت اُسے نہ ہوئی اور اُس نے اپنے دل میں  کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قسم یہ جھوٹ ہے اور اُس نے آپ پر تہمت لگانے کے عِوَض میں  میرے لئے کثیر مال مقرر کیا ہے۔

            حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں  چلے گئے اور یہ عرض کرنے لگے :یا رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر میں  تیرا رسول ہوں  تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں  نے زمین کو آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے، آپ اسے جو چاہیں  حکم دیں ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل سے فرمایا: ’’اے بنی اسرائیل! اللہ تعالیٰ نے مجھے قارون کی طرف بھی اسی طرح رسول بناکربھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا، لہٰذا جو قارون کا ساتھی ہو وہ اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ ا س سے جدا ہوجائے ۔یہ سن کر سب لوگ قارون سے جدا ہوگئے اور دو شخصوں  کے علاوہ کوئی قارون کے ساتھ نہ رہا ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں  پکڑ لے، تو وہ لوگ گھٹنوں  تک دھنس گئے۔ پھر آپ نے یہی فرمایا تو وہ کمر تک دھنس گئے۔ آپ یہی فرماتے رہے حتّٰی کہ وہ لوگ گردنوں  تک دھنس گئے۔ اب وہ بہت منتیں  کرتے تھے اور قارونآپ کو اللہ تعالیٰ کی قسمیں  اور رشتہ داری کے واسطے دیتا تھا ،مگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس طرف توجہ نہ فرمائی یہاں  تک کہ وہ لوگ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہوگئی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ وہ لوگ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں  گے۔ بنی اسرائیل نے قارون اور ا س کے ساتھیوں  کا حشر دیکھ کر کہا: حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قارون کے مکان ، اس کے خزانے اور اَموال حاصل کرنے کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی ہے۔ یہ سن کرآپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس کا مکان ، اس کے خزانے اور اموال سب زمین میں  دھنس گئے۔(خازن، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ۳ / ۴۴۲-۴۴۳، مدارک، القصص، تحت الآیۃ: ۸۱، ص۸۸۱، ملتقطاً)