banner image

Home ur Surah Al Qiyamah ayat 5 Translation Tafsir

اَلْقِيَامَة

Al Qiyamah

HR Background

بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَهٗ(5)یَسْــٴَـلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَةِﭤ(6)

ترجمہ: کنزالایمان بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ کے سامنے بَدی کرے ۔ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا۔ ترجمہ: کنزالعرفان بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ وہ اپنے آگے کو جھٹلائے ۔ پوچھتا ہے :قیامت کا دن کب ہوگا؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ: بلکہ آدمی چاہتا ہے۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں  ،ان میں  سے 3 معانی درج ذیل ہیں :

(1)…اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کا مرنے کے بعد اٹھائے جانے کا انکار کرنا کسی شُبہے اور دلیل نہ ہونے کی وجہ سے نہیں  ہے بلکہ حال یہ ہے کہ وہ سوال کرنے کے باوجود بھی اپنی بَدی پر قائم رہنا چاہتا ہے اور اِس کی دلیل یہ ہے کہ وہ مذاق اُڑانے کے طور پر پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا ۔

(2) …حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ آدمی مرنے کے بعد اٹھائے جانے اور قیامت کے دن حساب ہونے کو جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے سامنے ہے ۔

(3)…حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ آدمی گناہ کو مُقَدَّم کرتا ہے اور توبہ کو مُؤخَّر کرتا ہے اور یہی کہتا رہتا ہے کہ اب توبہ کروں  گا، اب عمل کروں  گا یہاں  تک کہ اسے موت آجاتی ہے اور وہ اپنی بَدیوں میں  ہی مبتلا ہوتا ہے۔( جلالین مع جمل، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۸ / ۱۷۳-۱۷۴، خازن، القیامۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۳۳۴، ملتقطاً)

توبہ میں  تاخیر کا مرض :

            فی زمانہ مسلمانوں  کی ایک تعداد ایسی ہے جس میں  یہ مرض پایا جاتا ہے کہ انہیں  گناہوں  سے رُک جانے اور ان سے توبہ کرنے کی ترغیب دی جائے اور شریعت کے اَحکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آگے سے یہ جواب دیتے ہیں کہ بھیا! ابھی تو بہت عمر پڑی ہے، جب بڑھاپا آئے گا تو گناہوں  سے توبہ بھی کر لیں  گے، نمازیں  بھی شروع کر دیں  گے،روزے بھی رکھنے لگیں  گے ، داڑھی بھی رکھ لیں  گے اور اللّٰہ اللّٰہ کرنے میں  مصروف ہو جائیں  گے لیکن ابھی تو ہم جوان ہیں  ، ابھی توہمارے عیش کرنے کے دن ہیں  اورابھی تو ہم نے دنیا دیکھی ہی کیا ہے جو اِن چیزوں  میں  مصروف ہو جائیں  اور بعض مسلمان تو ایسے بھی نظر آتے ہیں  کہ اگر ان کی اولاد میں  سے کوئی جوانی میں  گناہوں  سے دور بھاگنے لگے، نیکیوں  کی طرف راغب ہونے لگے،چہرے پہ داڑھی شریف سجا لے، نماز روزے کی پابندی شروع کر دے اور نبی ٔکریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں  پر عمل کرنے لگے تو اسے عمر لمبی ہونے کا کہہ کر ان چیزوں  سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں  اور طرح طرح سے اسے سمجھاتے ہیں ،مرنے یا ماردینے کی دھمکیا ں  دیتے ہیں  اور اسے گناہوں  بھری زندگی میں  لَوٹانے کے پورے پورے جَتَن کرتے ہیں  اور اگر وہ ان کی باتوں  میں  نہ آئے تو اسے گھر سے نکال دیتے اوراس کا سوشل بائیکاٹ کر دیتے ہیں  گویا کہ ان کے نزدیک اسلام کے اَحکام پر عمل کرنا ایسا سنگین جرم ہے جو ا س وقت تک معافی کے قابل نہیں  جب تک وہ ان احکام پر عمل کرنا چھوڑ نہیں  دیتا۔مسلمانوں  کی گناہوں  میں  مَشغولِیَّت، توبہ اور اپنی اصلاح سے دوری اور اسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنے کا دُنْیَوی نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ مسلمان دنیا بھر  میں  کمزور اور مغلوب نظر آ رہے ہیں  اور کفّار مُسلم ممالک پر حملے کر کے ا ن کی اینٹ سے انیٹ بجا رہے ہیں  جبکہ آخرت میں  ا س چیزکا انجام کیا ہو گا وہ اللّٰہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

وہ مُعَزّز تھے زمانے میں  مسلماں  ہو کر             

    ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں  ہو کر

            توبہ میں  تاخیر کرنے کے حوالے سے امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں : ’’ایمان دار توبہ کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن محض سُستی اور کاہلی کے باعث اس سے توبہ کرنے میں  تاخیر ہو رہی ہوتی ہے اور وہ دل ہی دل میں  کہتا جاتا ہے کہ میں  کل توبہ کر لوں  گا، ابھی یہ خواہش تو پوری کر لوں  بعد میں  اس کا نام تک نہ لوں  گا ،تو ایسے شخص سے پوچھئے کہ تُو (توبہ کے معاملے میں ) ٹال مٹول کرنے میں  کیوں  مبتلاہے ؟تو کس خوش فہمی کا شکار ہے؟تو توبہ کرنے کے لئے آج کی بجائے کل کا کیوں  مُنْتَظر ہے؟کیا معلوم کہ تجھے کل کا دن نصیب ہی نہ ہو،اگر تم یہ گمان رکھتے ہو کہ آج کی بجائے کل توبہ آسان ہو گی تو اس خام خیالی کو اپنے دل سے نکال دے کیونکہ یہ محال ہے اور یہ غلط بات جتنی جلدی تیرے دل سے نکل جائے اتنا ہی (تیرے لئے) اچھا ہے کیونکہ جو مشکل آج تمہیں  درپیش ہے وہی کل بھی ہو سکتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے تمام دن ایک جیسے بنائے ہیں ،ان میں  کوئی دن خاص نہیں  کیا جس میں  شہوت کو ترک کرنا آسان ہو۔ ایسے شخص کی مثال یوں  سمجھئے کہ جب اسے کہا جائے کہ فلاں  درخت کو جڑوں  سے اکھیڑ دو تو وہ کہے کہ یہ درخت بہت مضبوط ہے اور میں  بہت کمزور ہوں ،اب تو اسے اکھیڑنا میرے بس کی بات نہیں  البتہ آئندہ سال میں  اسے اکھیڑ دوں  گا۔ ذرا اس احمق سے پوچھئے کہ کیا اگلے سال وہ درخت اور مضبوط نہیں  ہو چکا ہو گا اور تیری کمزوری مزید بڑھ نہ چکی ہو گی؟ بس یہی صورتِ حال خواہشات کے درخت کی ہے جو روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اس لئے کہ وہ تو خواہشات اور لذات کا محکوم بن چکا ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات کے اَحکام پر تَسَلْسُل سے عمل پیرا ہے اور ا س کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ان خواہشات کی غلامی کی بندش کی وجہ سے ان کے خلاف چلنا اس کے بس کا روگ نہیں  رہتا، لہٰذا اے انسان !جتنی جلدی تو خواہشات اور شہوات کے درخت کو اکھیڑ سکتا ہے اسے اکھیڑ دے کیونکہ اس میں  تیرا ہی فائدہ ہے۔( کیمیاء سعادت، رکن چہارم، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳)