banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 101 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ﳍ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ ﳌ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍ(101)

ترجمہ: کنزالایمان اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں جلد ہم انہیں دو بار عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!) تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)

اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔

صرف جگہ سے کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))

حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))

حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))

حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)

حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)

حضرت عبادہ بن صامت  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ یا اللہ !عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲ / ۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹)

حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)

{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔} اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا

’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)

کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)

{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔} دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے  ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)

عذابِ قبر کا ثبوت:

            اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))

(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)

(3)…حضرت براء بن عازب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔( ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)

(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث:  ۲۶۸)

(5)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دعا مانگا کرتے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)