Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 102 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(102)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔} یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲)
شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۂ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم جہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضورِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)
{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔} یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)
{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے۔