Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 104 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(104)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔} اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں :
یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے، ان گناہوں پر ندامت کااظہار کرتے اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے معافی طلب کرے اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک اعمال کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ،اور اگر بندوں کے حقوق تلف کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں :
(1)… ان حقوق کا تعلق صرف قرض کے ساتھ ہے جیسے خریدی ہوئی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت یا بیوی کا مہر وغیرہ۔
(2)… ان حقوق کا تعلق صرف ظلم کے ساتھ ہے جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر ا س تک پہنچ گئی۔
(3)… ان کا تعلق قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے، جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔
پہلی صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معافی حاصل کرے۔ دوسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق سے معافی طلب کرے اور تیسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق ادا بھی کرے اور صاحب ِحق سے معافی بھی حاصل کرے۔ اگرتوبہ کی شرائط جمع ہوں تو توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراپنے وعدے کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کے لائق نہیں۔
یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ،چنانچہ توبہ سے پہلے حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فتنہ انگیزی اور شراب نوشی کی داستانیں مشہور تھیں ، ایک دن آپ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مجلس میں آئے، اس وقت حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(حدید:۱۶)(کیاایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں )کی تفسیر بیان کررہے تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے،اس دوران ایک جوان مجلس میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے مومن بندے! کیا مجھ جیسا فاسق و فاجر بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ’’ ہاں ، اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کردے گا، جب عتبہ نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ زرد پڑگیا اور کانپتے ہوئے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، جب انہیں ہوش آیا تو حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے قریب آکر یہ شعر پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اے اللہ تعالیٰ کے نافرمان جوان! تو جانتا ہے کہ نافرمانی کی سزا کیا ہے؟ نافرمانوں کے لئے پُر شور جہنم ہے اور حشر کے دن اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہے۔ اگر تو نارِ جہنم پر راضی ہے تو بے شک گناہ کرتا رہ، ورنہ گناہوں سے رک جا۔ تونے اپنے گناہوں کے بدلے اپنی جان کو رہن رکھ دیا ہے، اس کو چھڑانے کی کوشش کر۔
عتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے اے شیخ! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ ربِ رحیم قبول کرلے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا: درگزر کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ ظالم بندے کی توبہ قبول فرمالیتا ہے، اس وقت عتبہ نے سراٹھا کر اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں :
(1)…اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو نے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآنِ مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں ، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
(2)…اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسی آواز عنایت فرماکہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہوجائے۔
(3)…اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تَصَوُّر بھی نہ کرسکوں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تینوں دعائیں قبول کرلیں ، ان کا حافظہ اور فہم و فراست بڑھ گئی اور جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو ہر سننے والا گناہوں سے تائب ہوجاتا تھا اور ان کے گھر میں ہر روز شوربے کا ایک پیالہ اور دوروٹیاں (رزقِ حلال سے) پہنچ جاتیں ، اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے اور حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔( مکاشفۃ القلوب، الباب الثامن فی التوبۃ، ص۲۸-۲۹)اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔([1])
{وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ:اور خود صدقے ( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا اور اس پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال کے سوا قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے خواہ وہ ایک کھجور ہو پھر وہ صدقہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے دستِ قدرت میں بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۳(۱۰۱۴))
یاد رہے کہ حدیثِ پاک میں مذکور دائیں ہاتھ سے جسم والا دایاں ہاتھ مراد نہیں بلکہ یہ مُتَشابہات میں سے ہے جس کا معنی وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شایانِ شان ہے۔ نیز اس حدیثِ پاک میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو سود اور رشوت وغیرہ کی حرام آمدنی سے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے رہا ہے، اس لئے ہم غریبوں کی بھلائی اور رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے میں اس مال کو خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اس حدیث پاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ حضرت قاسم بن مُخَیْمِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص گناہ کے ذریعے مال حاصل کر کے اس سے صلہ رحمی کرتا یا صدقہ کرتا یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سب کو جمع کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔ (ابن عساکر، موسی بن سلیمان بن موسی ابو عمرو الاموی، ۶۰ / ۴۰۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تمہیں وہ شخص تعجب میں نہ ڈالے جس نے حرام مال کمایا کیونکہ اگر وہ اس مال کو (راہِ خدا میں ) خرچ کرے یا اسے صدقہ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اس میں سے کچھ بچ جائے تو یہ جہنم کی طرف ا س کا زادِ راہ ہو گا (شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۵)۔ ([2])