banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 103 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(103)

ترجمہ: کنزالایمان اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔} اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔  دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)

{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔} صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے دعا فرمائی ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))

تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)

{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)

لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی۔