Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 107 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(107)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا:اور وہ جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے مسجد بنائی۔} شانِ نزول: یہ آیت منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت میں تفریق ڈالنے کیلئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی، اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانہ ٔجاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا:یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں ؟ حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :میں ملتِ حَنِیْفِیَّہ، دینِ ابراہیم لایا ہوں۔ابو عامر کہنے لگا :میں اسی دین پر ہوں۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ، نہیں۔ اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا نہیں ،میں خالص صاف ملّت لایا ہوں۔ پھرابو عامر نے کہا: ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کو حالت ِسفر میں تنہا اور بیکس کرکے ہلاک کرے ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آمین فرمایا۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا۔ جنگِ اُحد کے دن ابو عامر فاسق نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ سے جنگ کروں گا ۔ چنانچہ جنگِ حُنَین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مصروفِ جنگ رہا ،جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر ملک شام کی طرف بھاگا تو اُس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے قوت واسلحہ جو سامانِ جنگ ہوسکے سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ ۔ میں شاہ ِروم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لے کر آؤں گا اور (سیّد ِعالم ) محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو نکالوں گا ۔یہ خبر پا کر اُن لوگوں نے مسجدِ ضِرار بنائی تھی اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا تھا یہ مسجد ہم نے آسانی کے لئے بنادی ہے کہ جو لوگ بوڑھے ضعیف کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں ،آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرمادیجئے۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے جارہا ہوں ،واپسی پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مرضی ہوگی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا۔ جب نبی ٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک علاقے میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ سے درخواست کی کہ اُن کی مسجد میں تشریف لے چلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اُن کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا، تب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر گرادیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب ملکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۲۸۱)
مسجد کے نام پر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے:
اِس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے نام پر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایاجاسکتااور اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی جاسکتی ہے لہٰذا ایسی مسجدوں سے بھی دور رہا جائے جہاں اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقص نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جہاں مسلمانوں کو باطل تعلیم دے کر لڑایا جاتا ہے۔ آج بھی جو مسجد دین میں فساد اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کیلئے بنائی جائے وہ مسجدِ ضرار ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔