Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 108 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(108)
تفسیر: صراط الجنان
{لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا:(اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۸۲)
امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا حرام مال سے بنائی گئی ہو وہ بھی مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۴۵۴)
فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے ،تو انہیں چاہئے کہ درج ذیل3 اَحادیث سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مسجد تعمیر کرنے میں فخر کریں گے ۔ (نسائی، کتاب المساجد، المباہاۃ فی المساجد، ص۱۲۰، الحدیث: ۶۸۶) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ نامْوَری، ریاکاری اور بڑائی کی نیت سے مسجد یں تعمیر کریں گے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لو گ جب مسجد (تعمیر کرنے) کے معاملے میں فخر کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تشیید المساجد، ۱ / ۴۰۹، الحدیث: ۷۳۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے اور انہیں آباد کم کیا کریں گے۔( صحیح ابن خزیمہ، جماع ابواب فضائل المساجد وبنائہا وتعظیمہا، باب کراہۃ التباہی فی بناء المساجد۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۳۲۱)
یاد رہے کہ کسی کے دل کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے ہم کسی کے دل کا حال معلوم کر سکیں اس لئے کسی مسلمان پر بد گمانی کرنے اور اس پر یہ الزام ڈالنے کی شرعاً کسی کو اجاز ت نہیں کہ اس نے فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کی ہے لیکن تعمیر کرنے والے کو بہرحال اپنے قلب کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔} اس سے مراد مسجدِ قباء ہے جس کی بنیاد رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رکھی اور جب تک حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی ۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
یاد رہے کہ دونوں مسجدوں کے بارے میں حدیثیں مذکور ہیں اور ان دونوں باتوں میں کوئی تَعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قبا ء کے حق میں نازل ہونا اس بات کو مُستَلْزِم نہیں ہے کہ مسجد ِمدینہ میں یہ اَوصاف نہ ہوں۔ احادیث میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ قبا ء کے کثیر فضائل مذکور ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :
یہاں آیت کی مناسبت سے مسجدِ نبوی کے تین فضائل ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۱، الحدیث: ۱۸۸۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)
(3)…حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں نَصب ہیں۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۳)
مسجدِ قبا کے3 فضائل:
مسجدِ قبا کو بھی بہت فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ اس کے بھی تین فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، من اتی مسجد قباء کلّ سبت، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳)
(2)…حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد قباء والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۶)
(3)…حضرت اُسَید بن ظُہَیر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۲۴)
{یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا:وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔} شانِ نزول: یہ آیت مسجدِ قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے فرمایا : اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں ،اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
ہر صاحب ِذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی ، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت وعظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی ،مکان اور سازو سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘ (البقرہ:۲۲۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاسے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ (کنز العمال، حرف الطاء، کتاب الطہارۃ، قسم الاقوال، الباب الاول فی فضل الطہارۃ مطلقاً، ۵ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۵۹۹۶، الجزء التاسع )
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع، حرف التاء، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱ / ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، فرمایا: ’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔(ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴ / ۷۲، الحدیث: ۴۰۶۲)
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّطیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جودو سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸)
اسلا م میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔