banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 110 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(110)

ترجمہ: کنزالایمان وہ تعمیر جو چنی ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ علم والا ، حکمت والا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان منافقوں نے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا یہاں تککہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنم میں ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں کا غم و غصہ مرتے دم تک باقی رہے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تک اُن کے دل اپنے قصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۴۵۶)

اعمال کے معاملے میں عقائد کی حیثیت :

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ اعمال کے معاملے میں عقائد کا درست ہونا اور باطن کا صاف ہو نابنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس طرح پانی پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ عمارت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سخت زمین پر بنایا جائے اسی طرح اعمال کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بنیاد درست عقائد اور تکبر،ریا وغیرہ سے صاف باطن پر رکھی جائے ،اگرعقائد درست نہ ہوں یا عقائدمیں پلپلہ پن ہو اور باطن بھی صاف نہ ہو تو ان پر اعمال کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور اعمال کی بنیاد درست عقائد ،اخلاص اور تقویٰ و پرہیز گاری پر رکھے تاکہ اس کے اعمال سے اسے نفع حاصل ہو۔