Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 109 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(109)
تفسیر: صراط الجنان
{اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ:تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ
ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبوط سطح
پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنیاد باطل و نفاق کے ٹوٹے ہوئے
کناروں والے گڑھے پر رکھی۔ (مدارک،
التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۴۵۵)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار
اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی
یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر
جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ
خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ
کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ
آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور
رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس
طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی
اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں
پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا
اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے
کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز
ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا
تو آپ نے فرمایا ’’ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی
بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۴۹۹)