Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 112 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(112)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ان مومنین کے ساتھ ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا، اس صورت میں اوپر والی آیت میں دیا گیا جنت کا وعدہ ان مجاہدین کے ساتھ خاص ہو گا جن میں اس آیت میں مذکور اوصاف پائے جائیں۔ امام زجاج کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ماقبل آیت میں مذکور مومنین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جدا طور پر بیان کئے گئے ہیں ، ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ سے لے کر آخر تک ذکر کئے گئے اوصاف جن میں پائے جائیں ان کے لئے بھی جنت ہے اگرچہ وہ (نفلی) جہاد نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘ (النساء:۹۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت کا یہ معنی بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جنت کا وعدہ تمام مومنین کے لئے ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۲-۱۵۳، ملخصاً)
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن ایمان والوں کا اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا وہی کفر سے حقیقی توبہ کرنے والے ،اسلام کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے، ایمان معرفت اور اطاعت کا حکم دینے والے، شرک اور گناہوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدوں یعنی اس کے اَمر و نہی کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی ) خوشخبری سنادو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ص۴۵۶-۴۵۷)
دوسری تفسیر یہ ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عہد و فا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۲۸۵)
{وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ:اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ۔}اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں ، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۵، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۴ / ۱۵۵، الجزء الثامن، ملتقطاً)
اسی بات کو عام الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوق العباد چھوڑ دیں اور حقوق العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔