Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 113 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُـوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(113)
تفسیر: صراط الجنان
{مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں۔} شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ممانعت فرمادی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب ما کان للنبیّ والذین آمنوا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۴۶۷۵)
بعض مفسرین نے یہ شانِ نزول بیان کیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنی والدہ کی زیارت ِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ’’مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ‘‘(مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر امّہ آمنۃ، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۳۳۴۵)
لیکن یہ ہرگز درست نہیں چنانچہ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شانِ نزول کی یہ وجہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کرکے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مُخْتَصِرُ الْمُسْتَدْرَکْ میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے، علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استغفار کرنے سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی ، ابنِ سعد اور ابنِ شاہین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ابنِ سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے رسالہ ’’اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃُ‘‘ میں اس مضمون کی تمام اَحادیث کو معلول بتایا ،لہٰذا یہ وجہ شانِ نزول میں صحیح نہیں اور یہ بات ثابت ہے، اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں کہ سیّدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ماجدہ مُوَحِّدہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والی) اور دینِ ابراہیمی پرتھیں۔
{مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ:جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔} یعنی جب ان کیلئے ظاہر ہو چکا کہ وہ شرک پر مرے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۴۵۷)خیال رہے کہ کسی مشرک کا مرتے وقت تک مسلمان نہ ہونا ا س بات کی علامت ہے کہ وہ کافر مرا لہٰذا اس پر اسلام کے احکام جاری نہیں ہوتے اگرچہ حقیقت حال کی خبر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے جیسے کسی کا مرتے وقت تک مسلمان رہنا اس کے اسلام پر مرنے کی علامت ہے اگرچہ اس کے خاتمہ کا حال ہمیں معلوم نہیں ،یہی آیتِ کریمہ کا مقصد ہے۔