banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 128 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(128)

ترجمہ: کنزالایمان بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔ ترجمہ: کنزالعرفان :بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے۔} یعنی اے اہلِ عرب! بیشک تمہارے پاس تم میں سے عظیم رسول، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے آئے جو کہ عربی، قرشی ہیں۔ جن کے حسب ونسب کو تم خوب پہچانتے ہو کہ تم میں سب سے عالی نسب ہیں اور تم اُن کے صدق و امانت، زہد و تقویٰ، طہارت وتَقَدُّس اور اَخلا قِ حمیدہ کو بھی خوب جانتے ہو۔ یہاں ایک قراء ۃ میں اَنْفُسِكُمْ‘‘فا پر زبر کے ساتھ آیا ہے، اس کا معنی ہے کہ تم میں سب سے نفیس تر اور اشرف و افضل ہیں ‘‘(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۲۹۸)

حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فضل و شرف:

اس آیت میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَوصاف اور فضیلت و شرف کا ذکر ہوا، اس مناسبت سے ہم یہاں آپ کے فضائل اور اَخلاقِ حمیدہ کے بیان پر مشتمل دو روایات ذکر کرتے ہیں۔

(1)…حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان میں سے بہترین رکھا، پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔ پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۳۵۰، الحدیث: ۳۶۲۷)

(2)…حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نجاشی کے دربار میں فرمایا ’’اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے ، رشتے داریاں توڑتے اور پڑوسیوں سے بد سلوکی کیا کرتے تھے اور ہم میں سے جو طاقتور ہوتا وہ کمزور کا مال کھا جا یا کرتا تھا۔ ہمارا یہی حال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف بھیج دیا جن کے نسب،صداقت، امانت اور پاک دامنی کو ہم پہچانتے تھے، انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کو ایک مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور ہم اور ہمارے آباء و اَجداد جن پتھروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت داری اور پاکیزگی اختیار کرنے، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے، حرام کام اور خون ریزیاں چھوڑ دینے کا حکم دیا، ہمیں بے حیائی کے کام کرنے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیاکہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر ایمان لے آئے اور جو دین وہ لے کر آئے ہم نے ا س کی پیروی کی۔ (مسند امام احمد، حدیث جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ۱ / ۴۳۱، الحدیث: ۱۷۴۰)

میلادِ مصطفٰی کا بیان:

اس آیتِ کریمہ میں سیِّد عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری یعنی آپ کے میلادِ مبارک کا بیان ہے۔ ترمذی کی حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی پیدائش کا بیان قیام کرکے فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۶-باب، ۵ / ۳۱۴، الحدیث: ۳۵۴۳) اس سے معلوم ہوا کہ محفلِ میلاد مبارک کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔

حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مقام:

حضرت ابو بکر بن محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر بن مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت ابو بکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تشریف لائے، حضرت ابو بکر بن مجاہد  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کھڑے ہوئے، ان سے معانقہ کیا اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ میں نے عرض کی :یا سیّدی! آپ حضرت شبلی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس قدر تعظیم کر رہے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں آپ کی اور تمام ا ہلِ بغداد کی رائے یہ ہے کہ یہ دیوانہ ہے! حضرت ابو بکر بن مجاہدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: میں نے ان کے ساتھ اسی طرح کیا ہے جس طرح میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کے ساتھ کرتے ہوئے دیکھا ہے ، میں نے خواب میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، پھر دیکھا کہ حضرت شبلی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آ رہے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت شبلی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیلئے کھڑے ہوئے اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ میں نے عرض کی : یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ شبلی کو اس قدر عزت دے رہے ہیں ،ارشاد فرمایا: یہ نماز کے بعد پڑھتا ہے ’’ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ ‘‘الآیہ۔ اورا س کے بعد مجھ پر درود پڑھتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ ہر فرض کے بعد یہ دو آیتیں پڑھتا ہے اس کے بعدمجھ پر درود پڑھتا ہے اور تین مرتبہ اس طرح پڑھتا ہے’’صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا مُحَمَّدْ‘‘۔(جلاء الافہام، الباب الرابع فی مواطن الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، فصل الموطن الرابع والثلاثون۔۔۔ الخ، ص۲۴۱)

{عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ:جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔} یعنی تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقتوں کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی مشقت کو دور کر نے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ اور فرمایا ’’ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ‘‘ یعنی وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۶ / ۱۷۸)

 امت کی بھلائی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حرص کی جھلک:

اس سے معلوم ہوا کہ اور لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کی بھلائی کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ رسولِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔اب اُمت پر ان کی حرص اور شفقت کی جھلک ملاحظہ ہو

حضرت زید بن خالد جُہنیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا۔ (ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء فی السواک، ۱ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳)

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے۔(مسلم، کتاب الحج، باب فرض الحجّ مرّۃ فی العمر، ص۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷))

صحیح مسلم میں ہی حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تین سوال عطا فرمائے، میں نے دو بار ( تو دنیامیں ) عرض کرلی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ‘‘اے اللہ !میری اُمت کی مغفرت فرما، اے اللہ ! میری اُمت کی مغفرت فرما۔ ’’وَاَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ اِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّہُمْ حَتّٰی اِبْرَاہِیمُ‘‘ اور تیسری عرض اس دن کے لیے اٹھا رکھی جس میں مخلوقِ الہٰی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ (اللہ تعالیٰ کے خلیل) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی میرے نیاز مند ہوں گے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب بیان انّ القرآن علی سبعۃ احرف وبیان معناہ، ص۴۰۹، الحدیث: ۲۷۳ (۸۲۰))

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے گنہگار انِ امت! کیا تم نے اپنے مالک و مولیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی یہ کمال رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی کہ بارگاہِ الہٰی عزجلالہ سے تین سوال حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا۔ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے ان میں کوئی سوال اپنی ذات پاک کے لیے نہ رکھا، سب تمہارے ہی کام میں صَرف فرما دیئے ،دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولیٰ رؤف و رحیم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سوا کوئی کام آنے والا، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا۔۔۔وَاﷲِ الْعَظِیمْ ! قسم اس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا !ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زنہار( یعنی کبھی بھی) اتنی مہربان نہیں جس قدر وہ اپنے ایک امتی پر مہربان ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۵۸۳)

امت کے دکھ درد سے خبردار:

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امت کے دکھ درد سے خبردار ہیں کیونکہ ہماری تکلیف کی خبر کے بغیر قلب مبارک پر گرانی نہیں آسکتی، نیز جیسے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت ہر وقت ہے ایسے ہی آپ کی خبرداری بھی ہر ساعت ہے۔

{بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ:مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا ۔یہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کمالِ تکریم ہے۔ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت سے متعلق دو اَحادیث:

سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رحمت و رافَت کے متعلق دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قرآنِ پاک میں سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس قول کی تلاوت فرمائی:

’’رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘(ابراہیم:۳۶)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ مجھ سے (تعلق رکھنے والا) ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔

            اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ قول ہے

’’اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ‘‘(المائدہ:۱۱۸)

ترجمۂ  کنزُالعِرفان:اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔

تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دست ِاقدس اٹھا کر دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری امت ،میری امت۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا ’’ اے جبریل ! عَلَیْہِ السَّلَام، میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رُلا رہی ہے ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی عرض معروض کی خبر دی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل سے فرمایا :تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ’’اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِیْ اُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْ ئُکَ‘‘ آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب دعوۃ النبیّ لامّتہ وبکائہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۰، الحدیث: ۳۴۶(۲۰۲))

(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میں کروں گا۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا۔ میں نے عرض کی: اگر پل صراط پر نہ پاؤں (تو کہاں تلاش کروں ) ؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے میزان کے پاس تلاش کر نا۔ میں نے عرض کی: اگر میزان کے پاس نہ پاؤں (تو کس جگہ تلاش کروں )؟ ارشاد فرمایا: ’’پھر مجھے حوضِ کوثر کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان تین مقامات سے اِدھر اُدھر نہ ہوں گا۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ما جاء فی شأن الصراط، ۴ / ۱۹۵، الحدیث: ۲۴۴۱)

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :

دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں

ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے

اور فرماتے ہیں :

مومن ہوں مومنوں  پہ رؤف رحیم ہو

سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے