Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 16 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةًؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(16)
تفسیر: صراط الجنان
{اَمْ حَسِبْتُمْ:کیا تم نے یہ گمان کرلیا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ممتاز نہیں کیا اور لوگوں کو ان کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم جہاد کرنے میں مخلص ہو یا نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۴۲۸-۴۲۹، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعویٔ ایمان کی صداقت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے کہ بندہ مشکل حالات میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں ؟ اور صبر کرتا ہے یا نہیں ؟
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز کردیا جائے گا نیز اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکوں سے دلی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے پاس مسلمانوں کے راز پہنچانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اوراللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اوراللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘ (النساء ۱۳۸،۱۳۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔
نیز ارشاد فرماتا ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ-وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ-قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ ‘‘(ال عمران:۱۱۸)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔
اس آیت کے آخر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیتوں اور ان کے مَقاصِد سے خبردار ہے اور ان میں سےکوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ، لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی نیت درست رکھنے پر خوب توجہ دے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ باطن ظاہر کے خلاف ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۸)