Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 17 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۚۖ-وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(17)
تفسیر: صراط الجنان
{مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ:مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔}اس آیت میں مسجدوں سے بطورِ خاص مسجدِ حرام، کعبہ معظمہ مراد ہے اور اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے تو اسے آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کو آباد کرنے والا، نیز مسجدِ حرام شریف کا ہر بقعہ مسجد ہے ا س لئے یہاں جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد سے مراد جنسِ مسجد ہے یعنی جو بھی مسجد ہو کافروں کو اسے آباد کرنے کی اجازت نہیں اور اس صورت میں کعبہ معظمہ بھی اسی میں داخل ہے کیونکہ وہ توتمام مسجدوں کا سردار ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹)
شانِ نزول: کفارِ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ان کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے شرک پر عار دلائی اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے تو خاص حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں آنے پر بہت سخت سست کہا ۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو۔ ان سے کہا گیا: کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ،ہم تم سے افضل ہیں ، ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں ، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں ،حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں ، اسیروں کو رہا کراتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مسجدوں کو آباد کرنے کا کافروں کو کوئی حق نہیں کیونکہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آباد کی جاتی ہے تو جو خدا عَزَّوَجَلَّ ہی کا منکر ہو اور اس کے ساتھ کفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا؟ ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۱-۲۲۲)
اس میں بھی کئی قول ہیں : ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا تعمیر کرنا، بلند کرنا، مرمت کرنا مراد ہے۔ اس سے کافر کو منع کیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا اور بیٹھنا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲)
تنبیہ: کفار سے مسجدوں کی تعمیر کے معاملے میں مدد نہیں لینی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوتی ہے۔
{شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ:جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔} یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ آدمی کافر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے۔ نیزارشاد فرمایا کہ’’ان کے تمام اعمال برباد ہیں ‘‘ کیونکہ حالتِ کفر کے اعمال مقبول نہیں ، نہ مہمانداری، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا، اس لئے کہ کافر کا کوئی فعل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو ہوتا نہیں ، لہٰذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کفر پر مرجائے تو جہنم میں اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ کفار کی نیکیاں جیسے مساجد کی خدمت، مسافر خانہ، کنوئیں وغیرہ بنانا سب برباد ہیں کسی پر کوئی ثواب نہیں۔