banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 38 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(38)

ترجمہ: کنزالایمان اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ راہِ خدا میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ:اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ ۔} شانِ نزول:یہ آیت غزوۂ تبوک کی ترغیب میں نازل ہوئی ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۲۳۹)

غزوۂ تبوک کا واقعہ:

تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، اس دور میں تبوک کی طرف جانے والا جو راستہ تعمیر کیا گیا ہے، جدید حساب کی رُو سے اس کا فاصلہ نو سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ رجب 9 ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد جب سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر پہنچی کہ عرب کے عیسائیوں کی سازش اور بَراَنگیختہ کرنے سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کا ایک بھاری لشکر جمع کر لیا ہے اور وہ مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ یہ زمانہ نہایت تنگی ،قحط سالی اور گرمی کی شدت کا تھا یہاں تک کہ دو دو آدمی ایک ایک کھجور پر گزارہ کرتے تھے۔ سفر دور کا تھا جبکہ دشمن تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کو گھر سے نکلنا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔ مدینہ منورہ کے بہت سے منافقین جن کے نفاق کا راز فاش ہو چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ اب ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامانِ جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مَفلوک الحال اور پریشان تھے اس لیے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے تمام قَبائل سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس غزوے میں دل کھول کر مال خرچ کیا ’’حضرت عبد الرحمٰن بن خباب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں بارگاہِ رسالت میں حاضر تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان کے ساتھ سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان سمیت دو سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تیسری مرتبہ ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پھر کھڑے ہو گئے اور عرض گزار ہوئے’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں تین سو اونٹ پالانوں کے ساتھ میرے ذمے ہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے تشریف لائے اور فرما رہے تھے کہ اس کے بعد عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بھی عمل کریں ان پر کوئی حرج نہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۷۲۰)

             یہ تو اعلان تھا لیکن حاضر کرتے وقت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اعلان سے کہیں زیادہ مال دیا تھا، حضرت علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جتنا مال حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خرچ کیا اتنا کسی اور نے نہیں کیا ،آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دس ہزار مجاہدین کوجہاد کاسامان دیا اور دس ہزار دینار اس غزوے پر خرچ کئے، سازو سامان کے ساتھ نو سو اونٹ اور سو گھوڑے اس کے علاوہ ہیں۔ (سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۴)

            حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا اگر میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کسی دن سبقت لے سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں ’’ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کی: اس کے برابر اتنے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا سارا مال (جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی) لے کر حاضر ہوئے تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے عرض کی’’ اَبْقَیْتُ لَہُمْ اللہَ وَرَسُولَہٗ ‘‘ گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے (دل میں ) کہا : میں ان سے کسی بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ (ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الرخصۃ فی ذلک، ۲ / ۱۷۹، الحدیث: ۱۶۷۸)

            ان کے علاوہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت عباس اور حضرت طلحہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی کثیر مال خرچ کیا، اسی طرح صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھی جو زیور تھا انہوں نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھیج دیا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملے میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عَساکرِ اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصرِ روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۳-۱۸۴)

بہرحال حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نَظم و نَسق چلانے کے لئے حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنا خلیفہ بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں غزوۂ تبوک کے موقع پررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو مدینہ منورہ میں چھوڑ دیا تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے! البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴))

جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تعالٰی کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا، ہرقل اپنے دل میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سچا نبی جانتا تھا اس لئے اسے خوف ہوا اور اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مقابلہ نہ کیا ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَطراف میں لشکر بھیجے، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو چار سو سے زائد سواروں کے ساتھ دومتہ الجندل کے حاکم اکیدر سے مقابلے کیلئے بھیجا اور فرمایا کہ تم اس کو نیل گائے کے شکار میں پکڑلو !چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ نیل گائے کے شکار کے لئے اپنے قلعے سے اتر اتو حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے گرفتار کرلیا اور اسے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں لے آئے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جزیہ مقرر فرما کر اس کو چھوڑ دیا، اسی طرح حاکمِ ایلہ پر اسلام پیش کیا اور جزیہ پرصلح فرمائی۔ (زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۹۰-۹۳ملتقطاً) واپسی کے وقت جب حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ کے قریب تشریف لائے تو جو لوگ جہاد میں ساتھ ہونے سے رہ گئے تھے وہ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ  کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ ان میں سے کسی سے کلام نہ کریں اور اپنے پاس نہ بٹھائیں جب تک ہم اجازت نہ دیں تو مسلمانوں نے ان سے اِعراض کیا یہاں تک کہ باپ اور بھائی کی طرف بھی اِلتفات نہ کیا اسی باب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔