banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 41 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(41)

ترجمہ: کنزالایمان کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر جانو۔ ترجمہ: کنزالعرفان تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔} یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)

 حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:

          حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)

{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔

(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔

(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔

(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)

مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:

(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)