banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 42 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُؕ-وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْۚ-یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْۚ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(42)

ترجمہ: کنزالایمان اگر کوئی قریب مال یا متوسط سفر ہوتا تو ضرور تمہارے ساتھ جاتے مگر ان پر تو مشقت کا راستہ دور پڑ گیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم سے بن پڑتا تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے اپنی جانو ں کو ہلاک کرتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ بیشک ضرور جھوٹے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا اور درمیانہ سا سفر ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن مشقت والا سفر ان پر بہت دور پڑگیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ یہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بیشک جھوٹے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔} یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)

آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

             اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ: ’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔

{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔} یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔

جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:

           اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔( بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)

(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،  وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))