banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 44 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ(44)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم سے چھٹی نہ مانگیں گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ خوب جا نتا ہے پرہیزگا روں کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے سے بچنے کی چھٹی نہیں مانگیں گے اور اللہ پرہیزگا روں کوخوب جا نتا ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اللہ اورقیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔}مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ(عَزَّوَجَلَّ) پر ایمان رکھنے میں رسولُ اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)پر ایمان رکھنا بھی داخل ہے کیونکہ ایمان سے مراد ایمانِ صحیح ہے، وہ وہی ہے جو رسول کے ساتھ ہو ورنہ اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کو منافق بھی مانتے تھے۔( نورالعرفان،التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۳۰۹)

حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:

اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر معذرتیں کرنا منافقت کی علامت تھی جبکہ کامل ایمان والے ہر کڑی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اور جہاد جیسے سخت موقع پر بھی دل و جان اور مال کے ساتھ حاضر ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اس بارے میں ایک واقعہ تو چند آیات کے بعد آرہا ہے اور ایک واقعہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جہاد کی رغبت کا بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموح انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لنگڑے تھے، یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اپنے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا، ان کے چار بیٹے بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کو لنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے، میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک متأثِّرہو گیا اور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ’’خدا کی قسم! میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا بیٹا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغِ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد حضرت عمر و بن جموح  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ میدانِ جنگ میں پہنچیں اور ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش رکھ کر دفن کے لئے مدینہ منورہ لانی چاہی تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدانِ جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’یہ بتاؤ! کیا عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں !وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ ’’یا اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب سوم ذکر سال سوم از ہجرت۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۴)