banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 45 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ(45)

ترجمہ: کنزالایمان تم سے یہ چھٹی وہی مانگتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنے شک میں حیران، پریشان ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ:آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں۔}یعنی جہاد کے موقعہ پر بہانہ بنا کر رہ جانے کی اجازت مانگنا منافقین کی علامت ہے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۴۲)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا اللہ تعالیٰ کا انکار ہے:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا درحقیقت رب تعالیٰ کا انکار ہے کیونکہ منافق اللہ عَزَّوَجَلَّ کو تو مانتے تھے، حضور ِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر تھے مگر ارشاد ہوا کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔

{وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ:اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس طرح کہ اسلام کی حقانیت اور کفر کے بطلان پر انہیں یقین نہیں اور نہ اس کے عکس کا یقین ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بولے کہ شاید اسلام برحق ہے اور اگر کفار کو فتح ہو گئی تو بولے کہ شاید یہ لو گ بر حق ہیں ورنہ انہیں فتح کیوں ہوتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ انہیں اللہ رسول کے وعدوں پر یقین نہیں اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خبروں پر اطمینان نہیں۔ ایمان تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر خبر میں ان کی تصدیق کی جائے۔ تردد تصدیق کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔