banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 56 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰـكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ(56)لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ(57)

ترجمہ: کنزالایمان اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں اور تم میں سے ہیں نہیں ہاں وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ اگر پائیں کوئی پناہ یا غار یا سما جانے کی جگہ تو رسیاں تڑاتے ادھر پھر جائیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور (منافق) اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں ۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا کہیں سما جانے کی جگہ مل جاتی تو جلدی کرتے ہوئے ادھر پھر جائیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔} منافقین اس پر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے دین و ملت پر ہیں اور مسلمان ہیں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرما دیا کہ  وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ان کا نفاق ظاہر ہوجائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہِ تَقِیَّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۵۰، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۴۴۰، ملتقطاً)

آیت ’’وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے:

(1)… تقیہ کرنا منافقوں کا کام ہے، مومن کا کام نہیں۔

(2)… جب عمل قول کے مطابق نہ ہو تو قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ منافق قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے مگر رب تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔

(3)… مسلمان دو طرح کے ہیں۔ حقیقی مسلمان اور ظاہری مسلمان یعنی دنیوی احکام کے اعتبار سے مسلمان۔ منافقین قومی مسلمان تھے دینی نہ تھے اس لئے انہیں مسجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، انہیں کفار کی طرح قتل نہ کیا گیا لیکن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے نزدیک مومن نہ تھے۔ وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْکے یہ ہی معنی ہیں۔

{ لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً:اگر انہیں کوئی پناہ گاہ مل جاتی۔} یعنی منافقین کا  رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے انتہا درجے کے بغض کی وجہ سے حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے پاس سے کسی پناہ گاہ، غار یا کہیں سما جانے کی جگہ کی طرف بھاگ جانے پر قادر ہوتے تو بہت جلد ادھر پھر جاتے کیونکہ بزدل کا کام ہی بھاگ جانا ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۲۵۰)