banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 55 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(55)

ترجمہ: کنزالایمان تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد کا تعجب نہ آئے اللہ یہی چاہتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان چیزوں سے ان پر وبال ڈالے اور کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں ،اللہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں اِن کی روح نکلے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ:تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں۔}اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے لیکن اس سے مراد مسلمان ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تم ان منافقوں کی مالداری اور اولاد پر یہ سوچ کر حیرت نہ کرو کہ جب یہ مردود ہیں تو انہیں اتنا مال کیوں ملا ۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں ان سے راحت و آرام دور کردے کہ محنت سے جمع کریں ، مشقت سے اس کی حفاظت کریں اور حسرت چھوڑ کر مریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۹)

{لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے۔} منافقوں پر مال کے ذریعے دُنْیَوی زندگی میں ڈالے جانے والے وبال کا کچھ ذکر اوپر ہوا ،اس کا مزید وبال یہ پڑے گا کہ مال خرچ کرنے کے معاملے میں ان کا دل تنگ ہو گا اور وہ (راہِ خدا) میں مال خرچ کرنا پسند نہ کریں گے جبکہ اولاد کے ذریعے ان پر دنیا میں یہ وبال آئے گا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں طرح طرح کی مشقتوں میں پڑیں گے، ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا انتظام کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کریں گے اور وہ مر جائیں تو یہ ان کی جدائی پر انتہائی رنج وغم میں مبتلا ہوں گے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۴۹)اور جب یہ مریں گے تو ان کی روح کفر کی حالت میں نکلے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں شدید عذاب دے گا۔

 کافروں اور مسلمانوں کی محنت و مشقت میں فرق:

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مال اور اولاد کی وجہ سے جس محنت و مشقت ،تکلیف اور رنج و غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کافر اور مسلمان دونوں شریک ہیں توپھر دونوں کی محنت و مشقت میں فرق کیا ہے کہ ایک جیسی محنت و مشقت ایک کے حق میں عذاب ہو اور دوسرے کے حق میں نہ ہو ؟اس کا جواب یہ ہے کہ مال اور اولاد کے معاملے میں اگرچہ مسلمان اور کافر دونوں کو ایک طرح کی محنت و مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مسلمان چونکہ ان مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور اس پر آخرت میں اسے ثواب ملے گا اس لئے یہ اُس کے حق میں عذاب نہیں جبکہ کافر کو چونکہ آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا اس لئے اُس کے حق میں یہ مشقتیں عذاب ہیں۔

کافروں کے مال و دولت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم:

اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کو کافروں کی مالی اور افرادی قوت پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دُنْیَوی عذاب ہے ۔ نیزکافروں کے مال ودولت کی کثرت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم اور بھی کئی جگہوں پر دیا گیا ہے ،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’لَا  یَغُرَّنَّكَ  تَقَلُّبُ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْا  فِی  الْبِلَادِؕ(۱۹۶) مَتَاعٌ  قَلِیْلٌ-  ثُمَّ  مَاْوٰىهُمْ  جَهَنَّمُؕ-وَ  بِئْسَ   الْمِهَادُ ‘‘(اٰل عمران:۱۹۶، ۱۹۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔(یہ تو زندگی گزارنے کا) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔

            اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

’’مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ‘‘(مؤمن:۴)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں (خوشحالی سے) چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کردینے والامال اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عذاب ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مال اور اولاد اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کرے وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے مال کی کثرت اور اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبات و اطاعت سے انتہائی غافل ہیں۔

غافل مالدار کا انجام:

            یہ بھی معلوم ہوا کہ مالدار کی جان بڑی مصیبت سے نکلتی ہے اور اسے دگنی تکلیف ہوتی ہے ایک تو دنیا سے جانے اور دوسری مال چھوڑنے کی جبکہ مومن کی جان آسانی سے نکلتی ہے کہ وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔