Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 71 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(71)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)
اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے
(1)… یہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔
(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔
(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔
اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے
(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔
(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔
منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق:
اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)
اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔