Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 72 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(72)
تفسیر: صراط الجنان
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)
{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔} ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنت فردوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)
جنتِ عدن اور اس کی نعمتیں :
جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)
{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔} یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ جنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)
یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔