Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 77 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(77)
تفسیر: صراط الجنان
{فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:تو اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے اِحتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۶ / ۱۰۸-۱۰۹)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (بخاری،کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۴،الحدیث: ۳۳)
آیت ’’ فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید 4باتیں یہ معلوم ہوئیں ،
(1)… بعض گناہ کبھی بد عقیدگی تک پہنچا دیتے ہیں۔
(2)… غریبی میں خداعَزَّوَجَلَّ کو یاد کرنا اور امیری میں بھول جانا منافقت کی علامت ہے۔
(3)… آدمی کا ایمان و تقویٰ سے محروم ہو جانا بھی عذاب ِ الٰہی ہے۔
(4)… حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کرنا اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا ہے کیونکہ ثعلبہ نے حضو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدوں سے متعلق مسلمانوں کا حال:
ثعلبہ کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر ہم اپنے حالات میں غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ہم میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال نہیں یا کہیں سے مال ملنے کی امید ہے تووہ یہ دعا ئیں کرتے ہیں کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں مال عطا فرما، ہم اس مال کے ذریعے فلاں نیک کام کریں گے ،اس سے فلاں کی مدد کریں گے اور تیرا دیا ہوا مال غریبوں کی بھلائی اور ان کی بہتری میں خرچ کریں گے ۔ اسی طرح بعض لوگ کسی بڑے مالی نقصان ، شدید بیماری یا حادثے سے بچ جانے کے دوران یا بچ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہت سے وعدے کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہماری فلاں مشکل اور پریشانی دور فرما دے اور ہمیں فلاں بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہونے والے زخموں سے شفا عطا کردے ، ہم اب کبھی تیری نافرمانی نہیں کریں گے اور تیری فرمانبرداری والے کاموں میں اپنی زندگی بسر کریں گے ،نماز روزے کی پابندی کریں گے، اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیں گے، ہم نے جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہیں وہ پورے کر دیں گے ،خود بھی نیک بنیں گے اور دوسروں کو بھی نیک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے کسی قریبی عزیز کے اچانک فوت ہوجانے پر دنیا کے عیش و عشرت اور اس کی رنگینیوں سے دور ہونے اور اپنی قبر و آخرت کی تیاری میں مصروف ہونے کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب انہیں مال مل جاتا ہے اور ان پر آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں شدید بیماری اور زخمی حالت سے شفا عطا کر دیتا ہے اور قریبی عزیز کے انتقال کو کچھ وقت گزر جاتا ہے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے سب وعدے بھول جاتے ہیں اور مال ملنے کے بعد اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے کا سوچتے نہیں اور غریبوں کو اچھی نظر سے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اپنی سابقہ گناہوں بھری زندگی میں مشغول ہو کر قبر و آخرت کی تیاری سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں۔قرآن اس طرزِ عمل کو منافقوں کا طرز ِعمل قرار دیتا ہے اور یقینا یہ ایک سچے مسلمان کا کردار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب کرے اور انہیں کامل مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے،اٰمین۔