Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 78 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ(78)اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْؕ-سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(79)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں تھا ۔} یعنی ان منافقین کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ پر کچھ مخفی نہیں ، وہ ان کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی جانتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے تو ان کا حال اللہ تعالیٰ سے کیسے مخفی رہ سکتا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۵)
{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ:وہ جو عیب لگاتے ہیں۔} شانِ نزول :جب آیتِ صدقہ نازل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے، ان میں بعض بہت زیادہ مال لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی تھوڑا سا مال لے کر آیا تو منافقین نے ان کے متعلق کہا: اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ، (یعنی اتنا تھوڑا دینے کا کیا فائدہ۔) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تویہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جو تم نے دیا اللہ تعالیٰ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے۔ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیویا ں چھوڑیں ،انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی۔ حضرت ابو عقیل انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار کلو کے قریب کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کیا کہ’’ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں ، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ صدقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۲۶۵)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلوں کا خلوص دیکھا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))
آیت’’ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں۔
(1)… جو لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہر عبادت کو نفاق یا دکھلاوے پر محمول کرتے ہیں اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن کرتے ہیں وہ منافقین ہیں۔
(2)…نیک لوگوں کا نیکی پر مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو فلموں ، ڈراموں سے تو تکلیف نہیں ہوتی البتہ دینی شَعائر پر عمل کرنے، دینی حُلیہ اپنانے، دین کا نام لینے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(3)… نیک بندوں کا مذاق اڑانا، انہیں تہمت لگانا، رب تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بدلہ لیتا ہے۔