Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 87 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ اسْتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ(86)رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ(87)
تفسیر: صراط الجنان
{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهٖ:اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو۔}بعض علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد کا درجہ ہے اور جہاد اعلیٰ درجے کی عبادت ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے ایمان کے بعد ذکر فرمایا۔ مگر حق یہ ہے کہ نماز سب سے اعلیٰ درجے والی عبادت ہے کہ جہاد اس کے قائم کرنے کے لئے ہے ۔ یہ آیت اس خصوصی موقعہ کے لحاظ سے ہے جب جہاد کی سخت ضرورت تھی۔
قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنے کی مذمت:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنا منافقوں کاعمل ہے کہ فرمایا گیا : ان منافقوں میں سے جو قدرت والے ہیں وہ آپ سے جہاد میں نہ جانے کی رخصت مانگ رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتے اور انہیں بے یار و مدد گار چھوڑے ہوئے ہیں ، اسی طرح ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اہلسنّت کے عقائد و معمولات کا دفاع کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کا دفاع نہیں کرتے اور سنی عوام کو بد مذہبوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی اس سے نصیحت حاصل کریں جو لوگوں کو گناہ سے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں گناہ سے نہیں روکتے اور انہیں نفس و شیطان کے واروں کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ رکھا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے جمعہ کے دن پڑھے جانے والے خطبات میں یہ لکھا ہے کہ اے اللہ! اس کی مدد کر جو ہمارے سردار اور ہمارے مولیٰ محمد (مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کی مدد کرے اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے جو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد ( مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کو فراموش کردے۔
{وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی۔} یعنی ان کے کفر و نفاق اختیار کرنے کے باعث ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں کہ جہاد میں کیا کامیابی و سعادت اور بیٹھ رہنے میں کیسی ہلاکت و شقاوت ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۴۹)