Home ≫ ur ≫ Surah Al Taubah ≫ ayat 90 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(90)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں جہاد سے رہ جانے کا عذر پیش کرنے کیلئے دیہاتی آئے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی انہوں نے سرورِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلہ طے کے عرب ہمارے بیوی بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بے نیاز کرے گا۔عمرو بن علاء نے کہا کہ ان لوگوں نے باطل عذر بنا کر پیش کیا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۱)
{وَ قَعَدَ:اور بیٹھے رہے۔} یہ دوسرے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے یہ منافقین تھے انہوں نے ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بولنا ہے کیونکہ ان بد نصیبوں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جھوٹ بولا ، اِس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھوٹ بولا۔
{سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ:ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔} یعنی ان منافقوں میں سے جو کھلے کافر بن جائیں ، انہیں دنیا میں قتل و غارت کا عذاب ہو گا یا ان منافقوں میں سے جو آخر دم تک کفر پر قائم رہیں ،ا نہیں آخرت کا درد ناک عذاب ہو گا۔