banner image

Home ur Surah Al Taubah ayat 91 Translation Tafsir

اَلتَّوْبَة

At Taubah

HR Background

لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(91)

ترجمہ: کنزالایمان ضعیفوں پر کچھ حرج نہیں ا ور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنہیں خرچ کا مقدور نہ ہو جب کہ اللہ و رسول کے خیر خواہ رہیں نیکی والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان کمزوروں پر اور بیماروں پر اورخرچ کرنے کی طاقت نہ رکھنے والوں پر کوئی حرج نہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں ۔ نیکی کرنے والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ:کمزوروں پرکوئی حرج نہیں۔} باطل عذر والوں کا ذکر فرمانے کے بعد سچے عذر والوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر سے جہاد کی فرضیت ساقط ہے ۔یہ کون لوگ ہیں ؟ان کے چند طبقے بیان فرمائے

          پہلا طبقہ ضعیف جیسے کہ بوڑھے ،بچے ، عورتیں اور وہ شخص بھی انہیں میں داخل ہے جو پیدائشی کمزور ضعیف ونحیف ہو۔

          دوسرا طبقہ بیمار، اس میں اندھے ،لنگڑے، اپاہج بھی داخل ہیں۔

           تیسرا طبقہ وہ لوگ جنہیں خرچ کرنے کی قدرت نہ ہو اور سامانِ جہاد نہ کرسکیں یہ لوگ رہ جائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱)

{اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں۔} یعنی ان کی اطاعت کریں اور مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری رکھیں۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱، ملخصاً)

            اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی رب تعالیٰ کی خیر خواہی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی نیکی نہ کر سکے مگر نیکیوں کا دل سے خیر خواہ رہے تب بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں میں شمار ہو گا۔ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ مجبور مسلمان جو جہاد میں شریک نہ ہو سکیں وہ مدینہ میں رہ کر اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی میں مجاہدین کے بچوں کی خدمت کریں۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم مدینہ منورہ میں ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ آئے ہو کہ تم جو سفر کر رہے ہو ،جو مال خرچ کر رہے ہو اور جن وادیوں کو طے کر رہے ہو ہر کام میں وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہمارے ساتھ کس طرح شمار ہو گئے جبکہ وہ تو مدینہ منورہ میں ہیں ، ارشاد فرمایا: انہیں مجبوری نے روکا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرخصۃ فی القعود من العذر، ۳ / ۱۷، الحدیث: ۲۵۰۸)